1970ء میں قومی انتخابات جنرل یحییٰ خان نے کروائے یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ ان انتخابات کے بعد پاکستان کا جو حشر ہوا وہ بھی ہم جانتے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل پورے ملک میں ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کو حل کرنا ہے تو پھر قومی انتخابات ہی اس کا واحد حل ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو مغربی پاکستان اور عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل ہوئی مختصر یہ کہ آخر کار پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ پاکستان کیوں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا؟ یہ ایک طویل بحث ہے، پاکستان پیپلزپارٹی بہرحال عوامی قوت بن کر اُبھری اور ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی سیاست کی بنیاد رکھی۔ پارٹی میں معراج محمد خان، مختار رانا، خورشید حسن میر، حنیف رامے اور ڈاکٹر مبشر حسن جیسے لوگوں کے علاوہ شیخ رشید احمد اور حیات محمد خان شیرپائو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں لیکن بعد میں اس عوامی سیاست کا رخ بدل گیا اور آہستہ آہستہ پارٹی میں جاگیرداروں اور وڈیروں نے اپنی جگہ بنا لی جن کے بارے میں یہ کہا جانے لگا کہ یہ پارٹی کی مجبوری ہیں۔ ان کو Electable کا نام دیا گیا پھر وہ وقت بھی آیا کہ پارٹی سے جے اے رحیم، مختار رانا اور بے شمار عوامی رہنما پارٹی سے نکال باہر کیے جانے لگے۔ ذرا اندازہ کریں کہ فیصل آباد کی شہری نشست جو کہ انتہائی اہم نشست شمار ہوتی تھی اس نشست پر مختار رانا اپنے مدمقابل امیر ترین شخصیت رفیق سہگل کو شکست دے کر ممبر قومی اسمبلی بنے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بعد میں رفیق سہگل کو پی آئی اے کا سربراہ بنا دیا… جس عوامی سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ ختم ہونے لگا۔ اب ایک بار پھر اسی طرح کی صورت حال بن چکی ہے۔ عمران خان کے پاس موقع تھا کہ وہ ایک نئی عوامی سیاست کی بنیاد رکھتے اور قومی انتخابات میں اپنے پارٹی ورکروں میں سے نوجوانوں کا انتخاب کرتے اور ان کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتے مگر ایسا نہیں ہوا…Electable آگے لائے جا رہے ہیں یعنی ہر طرف ایک ہی قسم کے چہرے ہیں، ادھر بھی وہی ہیں اور اُدھر بھی وہی ہیں۔ جن کے پاس بھاری سرمایہ ہے ان کو ہی ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ چار کروڑ اور پانچ کروڑ کے لگ بھگ خرچہ ہو گا۔ ایک نشست کے حصول کے لیے… ایک عام ورکر اور پڑھا لکھا نوجوان اتنا بھاری سرمایہ کہاں سے لا سکتا ہے؟ عمران خان اب بھی پاکستانی سیاست کا ہیرا ہے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، ہمت اور جواں مردی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اِس بار عمران خان اگر اپنی حیثیت برقرار نہ رکھ سکے تو پھر یاد رکھیں کہ دوبارہ یہ سنہری موقع نہیں آئے گا۔ Now or Never کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے اور پھر یہ یاد رہے کہ اقتدار وہی ہوتا ہے جو عوامی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا جائے۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور خاندانی اجارہ داریوں کے ذریعے حاصل کیا گیا اقتدار پھر کرپشن کے راستے کھول دے گا۔ اس طرح سے تبدیلی خاک آئے گی۔ کون سی تبدیلی، کیسی تبدیلی اور پھر کون لائے گا تبدیلی؟ تعلیم کا شعبہ تو پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔ اچھا نظامِ تعلیم دم توڑ چکا ہے۔ تعلیم کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اتنی مہنگی تعلیم کہ عام آدمی تعلیمی فیسیں ادا کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا اور دوسری جانب پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے دروازے بند ہو چکے ہیں نہ سرمایہ ہو گا نہ نوجوان پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے۔ یہ حکمت عملی اب منہ چڑھ کر بول رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی پالیسی ہی یہ ہے کہ نوجوان پڑھے لکھے پارلیمنٹ سے باہر رہیں اور مخصوص خاندانوں کے افراد ہی اقتدار پر ہمیشہ قابض رہیں، موجودہ جمہوری نظام کی بار بار ناکامی کی وجہ غیر آئینی مداخلت کو گردانا جاتا ہے اور پھر کہا یہ جاتا ہے کہ جمہوریت کو کبھی ارتقا کا موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہربار قومی انتخابات میں کسی نہ کسی طریقے سے جاگیردار، وڈیرے اور مخصوص خاندانوں کے لوگ اقتدار میں آ جاتے ہیں اور ان کو Electables کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور یہ ہر سیاسی جماعت کی مجبوری بن جاتے ہیں۔ اب اسی طرح کی صورت حال پی ٹی آئی میں بھی پیدا ہو چکی ہے خود عمران خان اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی اور اکثریت حاصل کرنے کی غرض سے Electables کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت سیاسی حکمت عملی تو ہو سکتی ہے مگر اس کے اثرات خود پی ٹی آئی کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک ہی کام بار بار کیا جائے اور پھر مختلف نتائج کی توقع رکھی جائے یہ سراسر بیوقوفی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس ڈگر پر چل رہی ہیں تو پھر فرق کیا ہوا۔ سب ایک ہیں، سب کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل اسمبلیاں ہرگز عوام دوست ہو ہی نہیں سکتیں۔ ظاہر ہے ان سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی اور انقلابی اصلاحات کی توقع رکھنا بھی حماقت ہو گی۔ جیسا کہ ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا کردار قانون سازی اور اس پر نظرتک محدود ہو۔ قانون سازی کے لیے ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کے تعلیمی پس منظر اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جائے اور ان ہی افراد کو رکن اسمبلی منتخب کیا جائے جو اس صلاحیت کے حامل ہوں۔ اس کے علاوہ تعلیم کا بجٹ GDPکا کم از کم 7فیصد حصہ لازمی کیا جائے۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نیب، ایف آئی اے اور دیگر اینٹی کرپشن اداروں کے سربراہان کا تقرر حکومت کی بجائے ممتاز بزرگوں کی عدالتی کونسل کے ذریعے کیا جائے۔ عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کروائی جائیں اور ہزاروں اضافی ججوں کا تقرر عمل میں لایا جائے تا کہ انصاف تین ماہ کی لازمی مدت میں فراہم کیا جا سکے۔ بدعنوانیوں پر سزائے موت کا نفاذ کیا جائے تا کہ لوٹی ہوئی قومی دولت ملک میں واپس لائی جا سکے اور اس حوالے سے کسی قسم کے ہرجانے اور جرمانے کی ادائیگی کی گنجائش نہ رکھی جائے۔ بقول ڈاکٹر عطاء الرحمن کے اگر ہم نے ان تبدیلیوں پر عمل درآمد نہ کیا اور پرانے قرضے چکانے کے لیے نئے قرضے لیتے رہے تو پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمارے پاس اپنے فوجیوں کی تنخواہ تک کے لیے پیسے نہیں ہونگے…ڈاکٹر صاحب کی ان تجاویز پر بھی غور کیا جانا چاہیے اور خود بھی اب پاکستانی قوم کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ آج پاکستان اپنی تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ اب اس کا کوئی فوجی حکومت حل نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام اور ہماری جمہوریت کی جو حالت اس وقت ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ قیادت کا فقدان اپنی جگہ پر ہے۔ اس وقت پاکستان میں دس کروڑ کی آبادی 25سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جس میں بھرپور صلاحیتیں موجود ہیں مگر ان کو رہنمائی چاہیے۔ عمران خان بلاشبہ نوجوانوں میں مقبول ہیں اور پاکستانی سیاست کا ہیرا ہیں،ان پر نوجوانوں نے اعتماد کیا ہے۔ اب ایسا نہ ہو کہ پاکستانی سیاست کا یہ ہیرا بھی چرا لیا جائے کیونکہ عمران خان کے دائیں بائیں جو لوگ اس وقت موجود ہیں یہ سب ہیروں کے بیوپاری بھی ہیں اور سرمایہ دار بھی ہیں لیکن عمران خان خود ہیرا ہیں وہ خود دولت کی لوٹ مار اور کرپشن سے آزاد ہیں۔ اسی بنا پر ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو تابناک مستقبل دینے کے لیے نوجوانوں ہی کو ساتھ لیکر چلیں، Electables پر انحصار کر کے اپنی سیاست کو دائو پر نہ لگائیں، ایسا کس طرح ممکن ہے کہ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی پارلیمنٹ میں موجودگی سے کسی تبدیلی کی توقع رکھی جائے… ماضی میں ہم نے دیکھا کہ 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست میں عوامی سیاست کو اُجاگر کرتے ہوئے سیاست پر چھا گئے وہ کہتے تھے کہ ’’میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں کہ جس گھر کی چھت ٹپکتی ہے‘‘ وہ اس کے باوجود لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان نہ دے سکے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے نظریاتی کارکنوں سے بھی دور ہوتے چلے گئے۔ جاگیرداروں اور وڈیروں میں گھر گئے جب ان پر برا وقت آیا اور جیل کی کال کوٹھڑی میں بند تھے ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے اسی دوران نئی شادیاں رچائیں اور اپنے قائد کو جیل کی سلاخوں میں تنہا چھوڑ دیا۔ یہ کیوں ہوا؟ اس کی وجہ وہی تھی کہ پوری پارٹی پرمفاد پرست ٹولہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی مشکل میں قابض ہو چکا تھا بہرحال اس پورے دور کا انجام انتہائی افسوسناک تھا… اب بنی گالہ کے باہر گزشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کا دھرنا جاری ہے جو کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا طرزِ سیاست مختلف ہے۔ عمران خان کا طرزِ حکمرانی بھی عوامی ہو گا اور وہ احتسابی عمل کو بھی یقینی بنائیں گے۔ عمران مختلف سیاستدان اس بنا پر بھی ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور 30سال تک حکمرانی کرنے والے آج انصاف کے کٹہرے میں ہیں۔ ان کے راستے میں بے پناہ مشکلات آئیں گی۔ معاشی حالت تباہ چکی ہے۔ پورا معاشرہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ تعلیم، صحت اور معاشی حالت بہتر بنانے کے عمل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے عمران خان اقتدار میں آتے ہیں تو پھر نظریاتی کارکنوں کو کم از کم اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے اور سیاست کے اس ہیرے کی حفاظت بھی کرنی چاہئے۔