پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں موروثی سیاست کا وجود ایک حقیقت ہے۔ آپ اسے ناپسند کریں‘ جمہوریت کے لیے نقصان دہ سمجھیں‘ بھلے اس کے سخت ناقد ہوں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا بھی پڑے گا کہ پاکستان میں خاندانی سیاست یا موروثی سیاست اب ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ موروثی سیاست کو ہمیشہ سخت تنقید کا نشانہ بنانے والے وزیراعظم عمران خان بھی اس حقیقت کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں شیخ رشید کا بھتیجا‘ تو کہیں پرویز خٹک کے بھائی اور داماد۔ ٹکٹ کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ عدالت سے نااہل جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو باپ کی جگہ الیکشن لڑانا بھی سب کو یاد ہوگا۔ بہرحال علی ترین سمجھدار نکلے کہ سیاست سے دامن چھڑا کرباہر بھاگ نکلے۔ ورنہ اب کے بار ضمنی الیکشن میں بھی وہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے کی حیثیت سے ٹکٹ کے سب سے اہل امیدوار تھے۔ تو بات کہنے کی یہ ہے کہ موروثی سیاست پر سب سے زیادہ لفظوں کے تیر برسانے والی نئے پاکستان کی دعوے دار جماعت بھی اسی موروثی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ عمرن خان کے اپنے بیٹے تو خیر نہ کبھی پاکستان میں رہے نہ پلے بڑھے۔ عملاً وہ برطانوی ہی ہیں اور اپنی ماں اور ننھیال خاندان کے زیر اثر ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہمیں موروثی سیاست کی کلاسک مثال دکھائی دیتی ہے۔ پارٹی کے عام جہاندیدہ‘ گھاگ اور سال خوردہ سیاستدان‘ سیاست میں اپنی تمام تر دانش اور تجربے کو پس پشت ڈال کر ایک نو آموز اور تازہ واردان سیاست کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔ یہ اور بات کہ درپردہ ان ہی میں سے کچھ سیاسی آنٹی اور انکلز ایسے بھی ہیں جو ’’بچے‘‘ کی سیاسی تربیت میں مصروف ہیں۔ سیاسی تربیت کا یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ جب بے نظیر بھٹو کے ناگہاں قتل کے بعد پیپلزپارٹی میں قیادت کی کرسی خالی ہوئی۔ اگرچہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر زرداری صاحب نے کرسی بھی سنبھالی اور قیادت بھی۔ پھر اپنے طریقے سے پارٹی کو چلایا مگر پارٹی کے بہت سے دیرینہ اور پرانے ساتھیوں نے ایک زرداری کو پارٹی کا چیئرمین دل سے تسلیم نہ کیا۔ پارٹی اس وقت کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی شہید بھٹو گروپ کی چیئرپرسن ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بھٹو کی سیاست کے وارث بھٹو کا بیٹا اور اس کا خاندان ہے۔ حقیقت مگر اس وقت یہ ہے کہ مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی بیٹی فاطمہ بھٹو سیاست سے زیادہ شاعری اور آرٹ میں دلچسپی رکھتی ہے اور بیٹا ذوالفقار بھٹو جونیئر گانے بجانے کا شوق رکھتے ہیں۔ عملی طور پر بھٹو کی سیاسی وراثت آصف زرداری اور نواسے بلاول زرداری سنبھال رہے ہیں۔ موروثی سیاست کی یہ ایک ناخوشگوار صورتحال ہے کہ پارٹی سے وابستہ افراد‘ کارکن اور فالورز پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھٹو کی وراثت سمجھتے ہیں اور ’’بھٹوز‘‘ سے باہر کسی اور کو اس کی قیادت سونپنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ موروثی سیاست کی ہی مجبوری تھی کہ بلاول زرداری کے نام کے ساتھ بھٹو کا اضافہ کیا گیا اور نام بلاول بھٹو زرداری بن گیا۔ نہ صرف خودساختہ بلاول کے نام کے ساتھ بلکہ آصف زرداری کی دونوں بیٹیوں کے ناموں کے ساتھ بھی بھٹو لگا دیا گیا۔ یوں یہ ایک باضابطہ اعلان تھا کہ اب بے نظیر بھٹو کے بچے پیپلزپارٹی کے سیاسی وارث ہیں۔ یہ بدترین صورت ہے موروثی سیاست کی کہ پارٹی میں قابل‘ جہاندیدہ‘ (Seasoned) سیاستدانوں کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کردیا جائے اور قیادت پر صرف بھٹو خاندان کا حق سمجھا جائے اور بھٹو کا یہ لاحقہ اس قدر ضروری ہو کہ زرداری کے صاحبزادے کے نام کے ساتھ بھٹو لگا کر اپنی تسکین کرلی جائے۔ بھٹو کی سیاسی وراثت کو بے نظیر بھٹو نے اون کیا اور اپنے بھائیوں کی موجودگی میں خود کو ان سے زیادہ اس سیاسی وراثت کا اہل ثابت کیا۔ اگرچہ نصرت بھٹو کی دلی خواہش یہی تھی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت مرتضیٰ بھٹو سنبھالے۔ وہ اپنی بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کی حمایتی تھیں۔ اس سے ان کے بینظیر بھٹو سے تعلقات بھی کافی کشیدہ رہے۔ اپنی بہن کے دور حکومت میں مرتضیٰ بھٹو کا المناک قتل ہوا جوکہ ایک الگ کہانی ہے۔ بہرحال بھٹو کی سیاسی وراثت اب تیس سالہ بلاول زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ ابھی بھی وہ اپنے والد کے زیر سایہ ہی سیاست میں پائوں پائوں چلنا سیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت ن لیگ میں بھی موروثی سیاست کے اثرات اب بہت واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ پانامہ کیس اور نوازشریف کی نااہلی کے بعد سب سے اہم سوال اس وقت یہی ہے کہ ن لیگ کا سیاسی وارث کون ہوگا۔ نوازشریف کے بعد ظاہر ہے سب سے زیادہ خیال برادر خورد شہبازشریف کی طرف ہی جاتا ہے جو خود کو صوبے کا متحرک اور بہترین منتظم ثابت کر چکے ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ طویل عرصے تک ان کے پاس رہی ہے۔ ان کی ترجیحات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات پر شاید سب ہی متفق ہو جائیں گے۔ ان سے زیادہ متحرک وزیراعلیٰ پنجاب نے نہیں دیکھا۔ چند برس پیشتر ڈینگی کی وبا کی صورت پنجاب پر موت کے سائے لرز رہے تھے۔ ڈینگی وائرس کو ختم کرنے کے ٹاسک کو جس طرح شہبازشریف نے پایہ تکمیل تک پہنچایا وہ دوسرے ملکوں کے لیے بھی مثال بن گیا مگر یہی شہبازشریف اپنے بھائی نوازشریف کے نااہل ہونے اور جیل جانے کی صورت میں جب پارٹی کے صدر بنے تو وہ ایک قومی سطح کے پارٹی رہنما کے طور پر اپنی اہلیت کا نقش جمانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ن لیگ کی سیاسی وراثت کے حوالے سے دونوں بھائیوں میں بے مثل اتفاق موجود رہا لیکن شریف خاندان کی اگلی نسل جو مریم نواز اور حمزہ شہباز کی صورت میں سیاسی میدان میں موجود ہے ان میں ان کہی رسہ کشی‘ رنجشیں دکھائی دیتی ہیں۔ جیساکہ میں نے کالم کے آغاز میں کہا کہ پاکستان میں موروثی سیاست اب ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ میں بھی اب ایک واضح کشمکش موجود ہے کہ شریف خاندان کی اگلی نسل میں سے کون اس کا سیاسی وارث بنے گا۔ مریم نواز یا حمزہ شہباز؟ جیل سے رہائی کے بعد مریم نواز ایک بار میدان میں ہیں اور اپنے چچا زاد حمزہ کو سیاسی میدان میں ٹف ٹائم دینے کو تیار ہیں۔ این اے 127 سے وہ ضمنی الیکشن لڑنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ حمزہ اور مریم کا تقابلی جائزہ بہت دلچسپ ہے۔ اگلے کالم میں اس کو موضوع بنائوں گی۔ کالم کی آخری بات یہی ہے کہ پاک سرزمین میں اپنی ہی طرز کی جمہوریت ہے‘ ایسی جمہوریت جس میں موروثی سیاست ہے۔ ایک حقیقت ہے‘ اس دائرے سے باہر نہ پارٹی کے رہنما سوچتے ہیں نہ ہی پارٹی کے کارکن۔