آزاد کشمیر جسے عرف عام میں آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے ماضی قریب میں برطانیہ یورپ اور امریکہ سے جب پارلیمانی وفود کو مظفرآباد براستہ اسلام آباد کا دورہ کروایا جاتا تو ائیرپورٹ سے سیدھا پروٹوکول میں لے جا کر اسلام آباد کے اعلیٰ ہوٹلمیں ٹھہرایا جاتا، وہاں پر کشمیر کی مناسبت سے کوئی چھوٹی موٹی تقریب یا سیمنار منعقد کروا کر گھنٹوں انگریزی میں انہیں تقریریں سنائی جاتی تھیں ارباب اختیار سے ملاقاتیں، مار گلہ اور گرد و نواح کی سیر کروائی جاتی پھر مظفرآباد لیجایا جاتا جہاں وہ ریاستی مہمان ہوتے صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کرائی جاتی ،مظفر آباد میں مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کروایا جاتا،ان کو مسئلہ کشمیر پر بریفنگ دی جاتی اور انہیں وہی پرانی لکھی ہوئی رٹی رٹائی باتیں سنوائی جاتی جنکا نہ کوئی مقصد ہوتا اور نہ اس کا آزادی کے لائحہ عمل مرتب کرنے کا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ہم نے کشمیر پر یہ سارا کچھ کرکے پیسہ اور وقت ضائع کیا 5 اگست 2019 سے کشمیر پالیسی گوں مگوں کا شکار ہے۔کشمیریوں میں بے چینی اور شکوک وشبہات جنم لے رہی ہے اس پر حکومت پاکستان کو جتنا جلد ہوسکے اپنی پالیسی کو وضع کرنا چاہئے،آزاد کشمیر کے حوالے سے یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ کوئی ربڑ سٹیمپ نما وزیراعظم بٹھایا جائے جس سے آزاد کشمیر کے حصے بخرے کئے جائیں وہ علاقے جو پنجاب سے ملتے ہیں انہیں پنجاب میں ضم کیا جائے اور وہ علاقے جو خیبرپختونخوا سے ملتے ہیں انہیں خیبرپختونخوا میں شامل کرلیا جائے ایسا اگر کوئی منصوبہ پائپ لائن میں ہے تو حکومت پاکستان کو کشمیری قوم کو اعتماد میں لینا چاہیئے میرا مشورہ ہے کہ ایسا کوئی ایڈونچر ہوا تو یہ پوری کشمیری قوم کے لئے ناقابل تسلیم ہوگا ۔ہونا تو یہ چاہیئے کہ نہ ہی ہمیں کشمیر پالیسی پر جنرل باجوہ ڈاکٹرائن کو خاطر میں لانا چاہیے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے حصے بخرے کرنے چاہیئے ۔کشمیر ایک وحدت اور حقیقت ہے آزادکشمیر ایک اکائی ہے جس کو زیادہ سے زیادہ داخلی خودمختاری دی جائے، یہاں کوشش کرنی چاہئے کہ ٹورازم انڈسٹری کو فروغ دیا جائے ،منگلا ڈیم کے چاروں اطراف سیاحوں کے لئے ریزارٹ کھولے جائیں،پورے پنجاب سے سیاح یہاں آئیں میرپور چکسواری تک ریلوے لائن بچھائی جائے، آزاد کشمیر پورے میں ایک فٹ بھی ریلوے لائن نہیں پورے آزاد کشمیر میں ایک بھی ائیرپورٹ نہیں ،میرپور کوٹلی کے لوگوں کو یہ سہولت تو دیں کہ وہ بیرون ملک سے اپنے گھروں کو جاسکیں ضلع کوٹلی کی بات کریں تو میں نے حال ہی میں مارچ میں یہاں کا سفر کیا یہاں چڑھوئی پنجن جہاں پر صوفی بزرگ میاں محمد بخش نے سیف الملوک لکھا یہ ایک تاریخی جگہ ہے انکے عقیدت مند کروڑوں میں ہیں، یہاں لوگوں کو لانے کے لئے سہولیات دی جائیں، ہوٹل بنائے جائیں ۔یہاں تھروچی کا تاریخی قلعہ بھی ہے کوٹلی کھوئی رٹہ وادی بناہ، تتہ پانی اور نکیال یہ اتنے خوبصورت علاقے ہیں یقین جانیے میں کوئی چھ دفعہ سوئزرلینڈ گیا ہوں وہاں سے بھی زیادہ یہ علاقے ڈیویلپ کرکے ہم اپنی آمدن بڑھا سکتے ہیں، مقامی افراد کو ملازمتیں دے سکتے ہیں، کوٹلی شہر کا بڑا مسئلہ صاف پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہے۔شہر کے گٹر کا پانی اور کوڑا کرکٹ دریائے پونچھ میں ڈالا جاتا ہے جس سے ماحول میں آلودگی اور بیماریاں بڑھ رہی ہیں، اسی طرح آزاد کشمیر کے جنگلات کاٹ کر لکڑی بلیک میں فروخت کی جارہی ہے۔ اگر آزاد کشمیر کے دیگر اضلاع کی بات کریں توراولاکوٹ تولی پیر خوبصورت علاقہ ہے باغ کی پہاڑیاں مظفرآباد اور وادی نیلم تک ٹورازم کو فروغ دیا جائے تو آزاد کشمیر پاکستان کا انتظامی یا دفاعی یونٹ نہیں بلکہ ایک پورا ملک ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے غیر ملکیوں کے یہاں داخلے پر این او سی ختم کیا جائے، آزاد کشمیر کے نوجوان آج اپنی محرومیوں کا اظہار ببانگ دہل کرتے ہیں، بجلی کی تحریک ہو یا حقوق کی خاطر چلنے والی کوئی تحریک ہو، آزاد کشمیر کا نوجوان روزگار تعلیم اور مواقع یکساں بنیادوں پر چاہتا ہے، وہ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت سے اسطرح جڑا ہوا ہے جیسے خود پاکستانی ہیں، انکا ملازمتوں تعلیم اور دیگر شعبوں میں کوٹہ بڑھایا جائے اور کشمیریوں کو بیرون ملک سفارت خانوں میں بھی نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو پاکستان سے الگ تھلگ نہ سمجھیں۔جاتے جاتے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی ایک وائرل ہونے والی ویڈیو سن کر سخت افسوس ہوا ہے جس میں وہ ایسے نوجوانوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جو کشمیر میں حقوق اور آزادی کی بات کرتے ہیں۔ لیڈروں کو پیار سے نوجوانوں کو سمجھانا ہوتا ہے۔ افسوس ہمارے لیڈر چاپلوسی میں حد کراس کرجاتے ہیں ہماری طرف آزاد کشمیر میں ہندوستان کا کوئی بھی ہمدرد نہیں لیکن محرومیوں کا اظہار کرنے سے غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی کوئی ضرورت نہیں یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادکشمیر کے سیاسی قائدین نے آزادکشمیر سیاسی اور آئینی حیثیت کو قائم کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں کیا پیش رفت کی ہے۔ چار سو میگاواٹ بجلی کے لئے آزاد کشمیر کی عوام سراپا احتجاج ہے اسمبلی کے اس وقت 53 ممبران ہیں جن میں سے 34 وزیر ہیں مشیران اکرام، سیکرٹریز سپریم کورٹ ہائی کورٹ اور دس اضلاع ہیں تین ڈویڑن بنے ہوئے ہیں چیف سیکرٹری ہے آئی جی ہے ہیلتھ فنانس سیکرٹری ہے ہر محکمے کے ڈپٹی سیکریٹرز ہیں 21 سے 22 سیکیل کے 38 افیسرز ہیں صدر ، وزیراعظم سپیکر قائد حزب اختلاف ہے ایک وزارت پر تقریباً دو کروڑ روپے ماہانہ خرچ ہے پاکستان سے ملنے والا 70 سے 80 فیصد بجٹ ان غیر پیداواری انتظامی امور پر خرچ ہوجاتا ہے جبکہ ترقیاتی کاموں کے لئے 20 فیصد بجٹ دستیاب نہیں ہوتا یہ بھی وسائل کا کھلے عام نقصان ہے۔ پاکستان کا خزانہ ان عیاشیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکے گا ،آزاد کشمیر کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئے اور غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنا چاہیئے۔