دلچسپ صورت حال تو ابھی آئندہ چند ماہ میں بننے والی ہے اگر بھارتی انتخابات فاشسٹ رہنمائوں پر منتج ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مستقبل میں عالمی حالات بھی میں اہم ہوں گے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عالمی پالیسیاں افغانستان کو عدم استحکام کا شکار کر رہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی باہمی مخاصمت سے عالمی طاقتوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ خطہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں۔ بھارت بدلتے عالمی تناظر میں اپنی کثیرالجہتی پالیسیوں کے باعث عالمی برادری کی آنکھوں کا تارا بن چکا ہے۔ بھارت، روس، چین، ایران اور جغرافیائی لحاظ سے متبادل قوتوں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور عرب ریاستوں کو بیک وقت اینگیج کئے ہوئے ہے اور دہشت گردی کے حوالے سے ان ممالک میں پل کا کردار ادا کررہا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف جارحانہ پالیسی کے باعث پاکستان کے پاس مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت عالمی سطح پاکستان پر مخالف گٹھ جوڑ کے ذریعے مختلف طریقوں اور اقسام کی ہائی برڈ جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں اور اس نے نہایت عیاری سے پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تنائو اور جارحیت کی صورت میں بھی پاکستان کی برداشت اور صبر کا امتحان لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتیں ابھرتے ہوئے فاشسٹ بھارت کو قابو کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں جبکہ ماضی میں بھی اس قسم کے رویوں کی بھاری قیمت ادا کی جا چکی ہے۔ بھارت کی سفارتی پالیسیوں اور جنگی حکمت عملی کا اظہار 24 ستمبر 2016ء کو ڈیفنس جنرل میں شائع ہونے والی ڈاکٹرائن سے بھی ہوتا ہے جس میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ اگرچہ جوہری چھتری کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی اہداف کے لیے جنگ سے گریز کیا جائے تاہم اسے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے آپریشل سطح پر زندہ رکھا جاسکتا ہے۔گو اس میں ردعمل کا امکان بھی موجود ہے۔ بھارت کی آپریشنل ڈاکٹرائن حقیقی سیاسی منظر نامے سے میل نہیں کھاتی۔ کامیابی کا یہ نظریہ بھلے ہی تخیلاتی ہو یا عملی، بہرحال بھارتی ذہن اور میڈیا کا تخلیق کردہ ہے۔ اس سیاسی تناظر میں جب بھارتی حکمرانوں کی خواہش بھارت میں ایک شاندار قدیم ہندو معاشرہ کی تشکیل ہو۔ زرد نظریات کا زور بازو پر نفاذ کے تصور سے ہی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ 15 اگست 2016ء کو بھارتی وزیراعظم نے بھارت میں مسلمانوں کے عروج کی شاندار علامت لال قلعہ میں تقریر کرتے ہوئے نہایت متکبرانہ انداز میں پاکستان کو دھمکیاں دے کر زرد نظریات پر سرکاری پالیسی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ انہوں نے لال قلعہ میں کھڑا ہو کر بلوچستان میں شدت پسندی کو بڑھوتری اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں سورش کو ہوا دینے کی بات کی تھی۔ گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی بھی مودی کی مسلم دشمنی کا واضح اشارہ تھا۔ بھارتی میڈیا 24 گھنٹے اور سات دن جس جنگی جنون کو فروغ دے رہا ہے اس کے پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر طویل المدتی خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور نریندر مودی کی یہ پالیسی دو ہمسایہ ممالک کو مخاصمت کی آگ میں جھونکے رکھے گی۔ فردوس احمد ایک معروف بھارتی تجزیہ کار اور جوہری سٹریٹجکسٹ ہیں۔ انہوں نے مودی کی ملٹری ڈاکٹرائن، جوہری معاملات بارے نہایت معقول تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے مودی کی حکمت عملی کو خود بھات کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ بھارت کی سرعت سے قوت کے استعمال کی پالیسی جوہری جنگ کے جن کو بوتل سے باہر نکلنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اس حماقت کا نتیجہ مکمل تباہی ہوگا۔ فردوس کہتے ہیں کہ اس صورت میں محدود جنگ اور ہتھیار ڈالنے کے امکانات بہت کم اور مکمل تباہی کے بہت زیادہ ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ بھارت محدود جوہری جنگ کے علاوہ پاکستان کے ساتھ ایک طویل جنگ کی حکمت عملی پر گامزن تھا؟ جیساکہ حالات نے ثابت کیا ہے۔ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے ساتھ عالمی سطح پر پاکستان پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام لگا کر عالمی ہمدردیاں بھی سمیٹ رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ عالمی برادری میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائے جو جدید تاریخ کی سب سے طویل اور خون ریز تحریک آزادی بن چکی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے جارحیت اس کی نیو کلیئر ڈاکٹرائن سے میل کھاتی ہے۔ قطع نظر اس کے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہلے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ان حالات میں بھارتی نیوکلیئر کمانڈ کی سیاسی کونسل کی طرف سے اس قسم کا رویہ دنیا کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ اپنی بات کے حق میں فردوس یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک تو پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کے وار ہیڈز بھارت سے زیادہ ہیں دوسرے پاکستان کسی صورت بھی جارحیت کو بزدلانہ انداز میں برداشت نہیں کرے گا۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے ایک حد سے بڑھ کر جارحیت کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ پلوامہ کے بعد جو ہوا وہ قصہ ماضی بن چکا ۔مگر فردوس کے تجزیہ کو مبنی برانصاف ثابت کرنے کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ جارحیت کے بعد بھارت کی فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاک بھارت تنائو میں جو کمی واقع ہو چکی ہے لیکن پاکستان نے نہایت سرعت سے سرخ لائن کھینچ دی ہے۔ بھارت میں بھی جلد امریکہ کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی۔ زد لباس والے شدت پسند اور میڈیا کے عقابوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ مودی کو اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ایک مبہم فتح اور میڈیا کے بل بوتے پر جیت کی منظر کشی کرنا پڑے گی۔ بھارت الیکشن کے نتائج کے بھی دو رس نتائج برآمد ہوں گے کہ لوگوں نے اپنے انتخاب کے جمہوری حق کو ایک ایسے شخص کو منتخب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو ہٹلر کا دوسرا روپ ہے یا پھر وہ گاندھی کی عدم تشدد کی پالیسی کا انتخاب کرتے ہیں؟ (ختم شد)