اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے آج میں جس شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں میں وہ شخصیت نہیں ادارہ تھے‘وہ ایک نظریہ تھے اور خیر کا استعارا تھے۔وہ ایک محبوب ہستی تھے کہ جن کے اجلے چہرے پر مجھے روشنی کا ہالہ نظر آتا تھا۔ آج ہمارے پیارے بزرگ دوست مربی معلم اور مصلح جناب پروفیسر رشید احمد انگوی کا تعزیتی ریفرنس تھا جس میں قرآن سے جڑے ہوئے شفاف و معطر لوگ جمع تھے۔ سب سے اعلیٰ آدمی وہ جسے میرا رب اور میرا رسولؐ اعلیٰ کہہ دے کہ وہی ہمارے نزدیک بڑھائی اور عظمت کا حقدار ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے ۔جناب رشید احمد انگوی کی پوری زندگی قرآن کے درس و تدریس میں گزر گئی وہ زوالوجی کے پروفیسر تھے اور پھر مولانا مودودی کی صحبت کہ جو مٹی کو سونا بنا دیتی تھی ان کا نصیب ہوئی۔مجھے وہ بہت ہی پیارے لگتے اور میں کبھی کبھی ان کے ہاں حاضر ہوتا اور ان کی باتیں سنتا اور نہال ہو جاتا۔وہ مولانا مودودی کی صحبت اور درس میں دس سال تک بیٹھے اور مولانا کو بھی ان سے انس تھا۔ فرمانے لگے کہ جب انہوں نے ایم ایس سی کی تو مولانا مودودی ان کی ملازمت کے بارے میں فکر مند ہوئے۔آج ریفرنس میں بھی ان کے حوالے سے دوستوں نے بہت کچھ کہا ایک بات محترم انور گوندل کی میرے دل کو لگی کہ مولانا مودودی کا موقف تھا کہ وہ دوچشمی لوگ تیار کریں مقصد یہ تھا کہ وہ جدید علوم اور دینی فکر سے آگاہی رکھتے ہوں۔ ویسے یہی اقبالی نظر ہے اور مومن کی فراست بھی یہی ہے اصل میں انگریز نے ان دو پہلوئوں پر تعلیم کو جدا جدا کر دیا مولانا مودودی کے پیش نظر یہی تھا سائنسی دور کے تابع ہو کر اپنی اساس ہی کو نہ چھوڑ دیا جائے اور دوسری طرف دنیا سے اس قدر بھی لاتعلقی اچھی نہیں کہ اگر جہاز کا ٹکٹ لینا پڑے تو کچھ پتہ ہی نہ ہو۔انور گوندل صاحب نے کہا کہ اس حوالے سے حضرت رشید احمد انگوی اس دو چشمی یعنی دو آنکھوں والی ہستی کی بہترین مثال تھے کہ وہ زوالوجی کے آدمی تھے اور ادھر قرآن کے مفسر۔ ان کے والد بھی بہت بڑے عالم دین تھے اور ان کے بڑے بھائی مولانا عثمان جو ماشاء اللہ حیات ہیں اس کام سے وابستہ ہیں۔ افریقہ میں ان کے ہاتھوں پر سینکڑوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے یعنی ہمہ خانہ آفتاب است ہزار چاند بنا کر ہوا میں چھوڑ دیے وہ وقت کے سانچے میں ڈھلنے والے نہیں بلکہ سانچے کو بدلنے والے تھے۔ ایک ریفرنس اس سے پیشتر بھی اعوان ٹائون میں طیب صدیقی کر چکے ہیں۔ میں اس میں حاضر نہ ہو سکا۔اعوان ٹائون کی مسجد رضوان میں پروفیسر رشید احمد انگوی نے سالہا سال تک قرآن کا درس دیا کہ ایک ہفتہ معروف سکالر ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب درست دیتے اور ایک ہفتہ انگوی صاحب۔ انگوی سے مجھے دو معروف شخصیات جو ہماری محسن تھیں یاد آئیں۔احمد ندیم قاسمی اور عبدالقادر حسن ۔ انگوی صاحب نے اقبال کی فکر پر کتاب لکھی۔انگوی صاحب کے دروس کا ایک اور حوالہ مولانا طارق جمیل صاحب بھی تھے اور اس کی بنیاد ان کی خواہش تھی کہ کس طرح سے فرقہ واریت ختم ہو جائے۔اسی طرح ہمارے استاد محرم مولانا حمید حسین صاحب نے توجہ دلائی کہ رشید احمد انگوی کے مزاج میں یہ پہلو بہت نمایاں تھا کہ بلا کی عاجزی محبت اور بے تعصبی۔وہ لوگوں کو جوڑنے والے تھے۔ طیب صدیقی جو کہ پنجاب یونیورسٹی میں ناظم بھی رہے نے بہت اچھی گفتگو کی اور دو بہت ہی اہم پہلوئوں کی طرح سامعین کی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ انگوی صاحب نے بتایا کہ لوگ انہیں اسلامیات کا آدمی سمجھتے ہیں مگر ان کا سائنس پر بھی بہت کام ہے۔ایک آرٹیکل کا بتایا جس میں قیلولہ کی اہمیت سائنٹیفکلی بتائی گئی کہ انسان کے پاس صرف آٹھ گھنٹے کی کیپسٹی ہے کہ وہ کام کر سکے۔اگر وہ قیلولہ کی سنت پوری کر لے یعنی دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کر لے تو اگلے آٹھ گھنٹے کے لئے تازہ دم ہو سکتا ہے۔دوسری بات یہ کہ انسان اپنا آپ بھول چکا ہے اس کو کمپیوٹر کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کے دو حصے ہیں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر انسان اپنی ساری توانائیاں اپنے ہارڈ ویئر یعنی جسم پر لگا رکھی ہیں جبکہ اس کا سافٹ ویئر یعنی روحانی نظام بالکل نظر انداز ہو گیا ہے اقبال یاد آتے ہیں: ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات اس ریفرنس میں نظامت جناب ملک شفیق کی تھی اور بعض اوقات پروگرام کی آدھی کامیابی اچھی نظامت پر ہوئی ۔انہوں نے احسن انداز میں مقررین کی گفتگو کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھائی۔غلام عباس جلوی صاحب نے خوب بات کی کہ انگوی صاحب لبیک قرآن کی مثال تھے کہ جب بھی انہیں درس کے لئے بلایا وہ پانچ منٹ کے نوٹس پر آ جاتے۔یہ بات انگوی صاحب نے ہمیں بتائی تھی کہ انہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا ہے کہ درس کے لئے کوئی جب بھی بلائے گا مجھے تیار پائے گا۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے سے پیشتر مرغزار کالونی کے ہر دلعزیز صدر چوہدری محمد شہزاد چیمہ کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں۔انہوں نے انگوی صاحب کی رحلت کو بہت بڑا نقصان قرار دیا کہ وہ کالونی میں خیرو برکت کا استعارا تھے۔خود محمد شہزاد چیمہ اس کالونی کے لئے باعث رحمت ہیں۔انہوں نے مسجدوں میں ہر سہولت پہنچائی ہے اور تو اور کالونی کی بڑی انٹریس کا نام ختم نبوت گیٹ رکھا ہے۔وہ ایک مجاہد آدمی ہیں بہرحال اس ریفرنس میں لوگوں کی خاصی تعداد تھی خاص طور پر معروف عالم دین جناب خضر یاسین صاحب‘عبدالغفور ایڈووکیٹ ‘ندیم خان‘ مختار صاحب‘صاحبزادہ صاحب اور دوسرے کئی دوست اور آخر میں سعید ملک کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے کہ جنہوں نے اس قدر اچھا انتظام و انصرام کیا اور بہت اعلیٰ طعام کا بندوبست بھی کیا رقت آمیز دعامولانا محمد حسین صاحب نے کروائی اور ڈاکٹر ناصر قریشی کی خواہش دہرائی کہ ہم میں سے کچھ لوگ رشید احمد انگوی صاحب کے مشن کو آگے لے جائیں اور انہیں اپنے عمل سے یاد رکھیں: شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا