اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں فرصت ہمیں ملی تو کبھی لیں گے سر سے کام اک در بنانا چاہیے دیوار چین میں معزز قارئین: میں نے شاید آپ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ چلیے اس پر تو بعد میں بات کریں گے کہ محبوب کے دل میں گھر کرنا یا محبوب کو اپنے سر کرنا کیسے کام ہیں۔ بہرحال سر سے کام لینا بھی اتنا آسان نہیں کہ یہ اس کے استعمال پر ہے۔ فی الحال تو مجھے کچھ نہایت دلچسپ یادیں آپ کے ساتھ شیئر کرنی ہیںکہ محترمہ سعدیہ قریشی کے دو کالم ذہنی امراض اور ڈیپریشن کے حوالے سے نظر نواز ہوئے ہیں۔ اتفاق ایسا ہے کہ ان امراض کے بارے میں کچھ کچھ میں بھی جانتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی ان میں مبتلا ہوں۔ ویسے تو ہر تخلیق کار تھوڑا تھوڑا ایب نارمل تو ہوتا ہے کہ وگرنہ آسمان سے ستارے توڑ کر لانا یا آسمان کو پیوند لگانا ایک نارمل آدمی کا کام نہیں۔آپ کسی دست شناس سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ انتہائی ذہانت اور فطانت کی لکیرمیں اور پاگل پن کی لکیرمیں بعض اوقات توفرق نہیں ہوتا ۔ بہت ذہین شخص اکثر پاگل پن پر اتر آتا ہے۔ مثلاً ٹوم ایڈی سن جب سات سال کی عمر میں انڈوں پر بیٹھ گیا تھا تو ماں نے مارا اور پوچھا ’’یہ کیا کر رہے ہو‘‘ اس معصوم ذہین بچے نے کہا میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرے بیٹھنے سے بھی بچے نکلتے ہیں یا نہیں‘‘ اتفاق ایسا ہے کہ میری بیٹی کو گردن توڑ بخار ہوا تو اس حوالے سے ڈاکٹر ہارون رشید سے رابطہ ہوا تو بہت جلد یہ دوستی میں بدل گیا کہ وہ فن شناس اور ادب آشنا تھے۔ وہ معروف شخصیت عبدالرشید کے بیٹے تھے جنہوں نے پاکستان کو دنیا کا بہترین ادارہ فائونٹین ہائوس دیا جس میں ذہنی لوگوں کا علاج ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہارون رشید اس ادارے کو اپنے ہی انداز میں چلاتے ہوئے بہت اونچے معیار تک لے گئے۔ انہوں نے یہاں مشاعرے کروائے۔ پہلے ہی مشاعرے میں شہزاد احمد ‘ امجد اسلام امجد‘ خالد احمد اور راقم تھے۔ وہ ادب اور شاعری کو شیزو فرینیا اور ڈیپریشن وغیرہ کا علاج سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب واصف ناگی نے ایک پنج تارہ ہوٹل میں ڈیپریشن میں ایک بہت بڑا سیمینار رکھا تو میں واحد شاعر سٹیج پر بیٹھا تھا۔ مجھ سے شاعری سنی گئی۔ واصف ناگی نے کہا کہ غمزدہ شاعری تو الٹا ڈیپریشن کو بڑھاتی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ علاج بالمثل ہے۔ یعنی لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ کیا کمال کی ہی کانفرنس تھی۔ ہرطرف ڈاکٹر ہی ڈاکٹر۔ اگلے روز اخبار میں جو تصویر چھپی تو میری تصویر کے نیچے بھی لکھاہوا تھا’’ڈاکٹر سعداللہ شاہ‘‘ ڈیپریشن کے حوالے سے بہت باتیں ہوئیں کہ ڈاکٹر کے ساتھ سائیکاٹرسٹ کے ساتھ مشاورت بہت ضروری ہے۔ یہ بات تو درست تھی مگر ذہنی مریضوں کو یہ جان کر بیماری بڑھ جاتی ہے کہ ڈاکٹر یاسائیکاٹرسٹ اس کو بچوں کی طرح بہلا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا ہو گا ہو چکی اپنی پذیرائی بھی کہیں ایک بے بسی بھی تو آ جاتی ہے! محرومیوں کا اور بھی احساس یوں ہوا چاہا تھا جو بھی تیرے سوا مجھ کو مل گیا ڈاکٹر عارف الرشید اکثر اپنی بریفنگ میں مجھے مدعو کر لیتے اور سامعین کے ساتھ ایک شعری نشست بھی ہو جاتی ہے۔ قصور کا دورہ مجھے یاد ہے۔ ڈاکٹر روزینہ بھی ساتھ تھیں۔ وہاں ذہنی امراض پر سیمینار تھا سکرین پر فلم دکھائی گئی پھر اس کے بعد یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ میری ایک غزل سلائیڈ پر تھی اور ڈاکٹر صاحب کی گفتگو۔ حاصل اس کانفرنس کا یہ تھا کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ ذہنی امراض بھی بالکل اس طرح ہیں جیسے بدن کی دوسری بیماریاں۔ ظاہر ہے ذہن یا دماغ بھی تو ایک عضو بدن ہے۔ نہ جانے کم علمی یا جہالت کے باعث ہم نے ایک تصور یا ٹیمپو بنا لیا ہے کہ ذہنی مریض کوئی پاگل نما چیز ہوتا ہے۔حالانکہ پاگل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے تو یہ ہمارا تکیہ کلام سا ہو گیا ہے جس کی بھی بات سمجھ میں نہ آئے ہم بڑے رسان سے اس کو پاگل قرار دے دیتے ہیں۔ ذہنی مریض تو زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ یہ سپیشل لوگ بعض اوقات آپ کو حیران کر دیتے ہیں۔ میرے دوست معروف شاعر آصف شفیع کا چھوٹا بھائی شیزوفرینیا کا مریض تھا اسے فائونٹین ہائوس میں رکھا تو ایک دن اس نے آصف کو خط دیا کہ فلاں اخبار کے چیف ایڈیٹر کو دے دینا ۔ اس میں اس نے لکھا تھا کہ یہ سب مجھ کو پاگل سمجھتے ہیں حالانکہ …آصف سے اس نے پوچھا تو بتایا گیا کہ خط پہنچا دیا گیا تھا مگر چھوٹے بھائی نے کہا کہ ’’بالکل غلط تم لوگوں نے میرا خط باقاعدہ کھولا تھا‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے آپ کے ساتھ مل کر اس خط کو پڑھا تھا اور آپ کو مشورے بھی دیے تھے۔اس کی بات سن کر سب ہکے بکے رہ گئے۔ ڈیپریشن کے مریضوں کو تو ڈاکٹر ہارون رشید اللہ سے لو لگانے کا مشورہ دیتے۔ وہ عجب یقین والے آدمی تھے کہتے کہ ایک کیمرہ ہر وقت سب کی مووی بنا رہا ہے کسی کو علم نہیں اور کسی کو یقین نہیں مگر یہ سب کچھ ایک دن سامنے آ جائے گا۔ وہ بالکل بابوں کی طرح بات کرنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک امید کتاب بھی لکھی جس میں پڑھنے والوں کے لئے اطمینان کا بہت سامان تھا۔ وہ احباب ہسپتال میں 25سال تک منگل کے روز مریضوں کو مفت دیکھتے تھے۔ انہوں نے فائونٹین ہائوس کے لئے ثریا خانم اور ایسے ہی فنکاروں کو انگیج کر رکھا تھا۔ ایک دن کہنے لگے کہ وہ اب اپنے آپ سے باہر نکل آئے ہیں اور باقی عمر دوسروں کے لئے جئیں گے اس میں ایک پیغام ہی تھا کہ دوسروں کے لئے زندہ رہنے والا ہر قسم کے ڈیپریشن سے نکل آتا ہے۔ ڈیپریشن کا ایک رخ خود ساختہ گلٹ بھی ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے نذر ایک شعر کر دیا: سحر کے ساتھ یہ سورج کا ہم رکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا ذہنی مریض عدم توجہ کے باعث بھی کچھ زیادہ آگے نکل جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے پیمانوں پر نہیں پرکھنا چاہیے۔ویسے اب تو زمانہ کافی بدل چکا ہے کہ یہ ذہنی تنائو انگزائٹی ڈیپریشن اور اسی طرح کی ساری حالتیں زیادہ تر اشرافیہ میں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات ڈیپریشن اور انگزائٹی تو فیشن اختیارکر چکی ہے زیادہ تر مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کی زندگی کا کوئی رخ نہ ہو‘ سامنے کوئی مقصد نہ ہو‘ پاس زاد آخرت نہ ہو۔ کوئی روحانی آسرا تو ضروری ہے: چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو مومن نے تو کہہ دیا تھا کہ ’’آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہونگے‘‘ مگر کریں کیا اور کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں۔ آخری آسرا وہی ہے اس کے لئے اس کے بندوں سے پیار کریں۔ وہی جو راجندر سنگھ بیدی نے کہا تھا’’اپنے دکھ مجھے دو‘‘بس وہ انہی کے دلوں میں آن بسیرا کرتا ہے جو درد دل رکھتے ہیں۔ خلق خدا میں سکھ بانٹتے ہیں۔ اچھی اور مثبت سوچ دورون خانہ تبدیلی لاتی ہے جسے ڈاکٹروں کی زبان میں ہارمونز کہتے ہیں۔ ابراہم لنکن نے جب ایک ٹھٹھرتے ہوئے بلی کے بچے کو اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیا تھا تو کسی نے تعریف کی۔ اس نے کہا ’’نہیں‘‘ میں تو خود غرض آدمی ہوں اس مرتے ہوئے بچے کو بچانے میں میرا اپنا سکون چھپا ہوا تھا سب اچھے کام ڈیپریشن ختم کرتے ہیں۔ ہر ذہنی مرض کا علاج موجود ہے کہ دوا بھی اور دعا بھی۔