پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے حمزہ شہباز کے 159ووٹوں کے مقابلے میں 186ووٹ حاصل کئے۔ کے پی کے میں محمود خان‘ بلوچستان میں جام کمال اور سندھ میں سید مراد علی شاہ وزارت اعلیٰ کے لیے منتخب ہو چکے ہیں۔ یوں انتقال اقتدار کا مرحلہ اس پرامن طریقے سے طے پاتا نظر آتا ہے جو صرف جمہوریت کا خاصہ ہے۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی 22کروڑ ہے جس میں سے 11کروڑ پنجاب میں ہے۔ یہ صوبہ طویل عرصے سے گوناگوں مسائل کا شکار رہا ہے‘ یہاں کی سب سے بڑی خرابی پولیس کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہے۔ سابق حکمران جماعت نے جب کبھی پولیس اصلاحات کی بات کی اس کے پیش نظر نئی عمارتیں‘ تیز رفتار گاڑیاں اور جدید اسلحہ کی فراہمی رہی۔ تھانوں کے انچارج مقامی سیاستدانوں کی سفارش پر تعینات ہوتے رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے لوگ اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات درج کرانے اور ان پر پولیس کے ذریعے تشدد کرانے میں ملوث رہے۔ برسر اقتدار افراد کی ذاتی خدمات کے بدلے پولیس اہلکاروں نے خود بھی جرائم پیشہ گروہ بنا لیے۔ یہ گروہ قتل‘ املاک پر قبضہ‘ قحبہ خانے اور جوئے کے اڈے چلانے کا دھندہ کرتے ہیں۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جس علاقے سے منتخب ہو کر صوبائی اسمبلی میں پہنچے ہیں وہاں دیگر محرومیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے جبر اور نالائقی کی داستانیں بھی عام ہیں۔ تحریک انصاف کے پی کے میں پولیس اصلاحات کے ضمن میں ایک قابل ستائش مثال قائم کر چکی ہے۔ پنجاب کے عوام کے پی کے پولیس جیسی مظلوموں کے ساتھ مہربان پولیس دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ ایسی پولیس جو ماڈل ٹائون جیسے سانحہ میں مجرم نہ ہو۔ پنجاب میں ہر قسم کی تعلیم کے ادارے کثیر تعداد میں ہیں لیکن تعلیمی سہولیات کے حوالے سے ایک بڑا خلا ہے جسے پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان ایجوکیشن اٹلس کے مطابق پنجاب میں ایک لاکھ 878تعلیمی ادارے ہیںجن میں سے 52986سرکاری جبکہ 47892نجی ہیں۔ پنجاب میں خواندگی کی شرح 60فیصد ہے۔ ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ پنجاب میں سکول کی سطح کی تعلیم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے دو سال قبل حکومت نے 5سال کی عمر کے بچوں کے 2018ء تک سو فیصد داخلے کا ہدف مقرر کیا تھا مگر آج بھی لاکھوں بچے پانچ سال سے زائد عمر کے ہونے کے باوجود سکول نہیں جا سکتے۔ دانش سکولوں اور سرکاری سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کی پالیسی نے مزید خرابیاں پیدا کیں۔ کے پی کے میں نئے سکول اگرچہ کم بنے لیکن دستیاب تعلیمی سہولیات کو بہتر بنا کر اچھے نتائج لیے گئے ہیں۔ پنجاب کی سابق حکومت پر سب سے زیادہ تنقید صحت کی سہولیات نہ ہونے پر کی جاتی رہی ہے۔احمد پور شرقیہ میں تیل سے جھلسنے والے سینکڑوں لوگوں کے لیے پورے صوبے میں کوئی برن یونٹ نہ تھا۔ ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے لیے ادویات اور معائنے کی سہولیات چند بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ شہباز شریف صرف ذاتی پرخاش کی وجہ سے وزیر آباد کارڈیک ہسپتال اور لاہور میں جوبلی ٹائون ڈینٹل ہسپتال و کالج کا افتتاح کرنے میں رکاوٹ بنے رہے کیونکہ یہ منصوبے چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع کئے گئے تھے۔ صحت کے شعبے میں بدانتظامی کی یہ حالت تھی کہ لاہور کارڈیالوجی سے علاج کرانے والے دو سو سے زائد مریض غیر معیاری گولیاں کھانے اور تین سے سو سے زائدبچے ناقص شربت پینے سے مر گئے مگر حکومت نے کسی کے خلاف کارروائی نہ کی۔ صوبے بھر کے پسماندہ علاقے صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ مریض لاہور آتے آتے راستے میں دم توڑجاتے ہیں۔ پنجاب میں حکومت بدلی ہے‘ امید ہے کہ ڈاکٹروں کی دستیابی ‘ ادویات کی فراہمی اور دور دراز علاقوں میں ہسپتالوں کی تعمیر پر فوری توجہ دی جائے گی۔ پنجاب آزادی سے قبل سے پورے برصغیر کا اناج گھر کہلاتا تھا بلکہ افغانستان اور وسط ایشیائی آبادی کی غذائی ضروریات بھی پنجاب سے پوری ہوتی تھیں۔ مسلم لیگ ن نے اس صوبے پر کئی عشرے تک حکومت کی لیکن اس کی زراعت کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ یہ امر ہرگز دانشمندی کا مظہر نہیں کہلا سکتا کہ جس شعبے پر 60فیصد آبادی کا معاشی انحصار ہو اسے فراموش کر دیا جائے۔ کپاس کی فصل کو 2010ء سے 2014ء تک ہر سال سیلاب سے نقصان پہنچا‘ پھر اس کے زیر کاشت رقبہ میں کمی آتی گئی۔ آلو کے کاشت کار گزشتہ کئی سال سے بحران کا شکار ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کی برآمد کے لیے اقدامات ناکافی رہے‘ نئی تحقیق‘ زرعی آلات‘ ٹیکنالوجی اور ماہرین کی خدمات سے اس شعبے کو محروم رکھا گیا۔ کسان مسلسل احتجاج کرتے رہے مگر ان کے مطالبات کو سیاسی قرار دے کر لائق توجہ نہ سمجھا گیا۔ زرعی شعبے کو مسلسل نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے صوبے میں کاشت کاروں کی بڑی تعداد حکومت کے خلاف ہو گئی لیکن اس صورت حال کا اس سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قومی زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔سابق صوبائی حکومت نے گورننس کا جو ماڈل اختیار کیا اس میں اپنے وفادار سرکاری افسران کو مختلف کمپنیاں بنا کر اضافی مراعات فراہم کرنا اور ان کے ذریعے سرکاری امور چلانا تھا۔ یہ ماڈل کرپشن کے فروغ کا باعث بنا اور ساتھ ہی عوامی نمائندوں کی جگہ بیورو کریسی کے اختیارات میں اضافے کا موجب بنا۔ گورننس کا یہ ماڈل جمہوری اصولوں کے خلاف تھا۔اس ماڈل کی باقیات 56کمپنیوں کے سکینڈل کی صورت میں نیب تک پہنچ چکی ہیں۔ تحریک انصاف عوام کو بااختیار بنانے کی بات کرتی رہی ہے۔ افسر شاہی کو عوام کے تابع ہونا چاہیے۔ اسے کسی طرح کسی جماعت یا شخصیت کی وفادار کی بجائے ریاست کی وفادار بنایا جا سکتا ہے‘ اس کا تعین نئی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سردار عثمان بزدار اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ یہ امر ان کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ امن و امان‘ صحت ‘تعلیم‘تفریح اور رہائش کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کے نظام میں بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق حکومت نے دو تین شہروں میں میٹرو منصوبوں پر جتنی رقم خرچ کی اس سے پورے صوبے کو آرام دہ بسیں فراہم کی جا سکتی تھیں۔ میٹرو جیسے منصوبے بھی ہماری ضرورت ہیں مگر ان سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ حکومت چھوٹے علاقوں کے حصے کے وسائل بڑے شہروں پر خرچ کر رہی ہے۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ کو اپنی کارکردگی کے حوالے سے بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ انہیں خود کو مستعد‘ دانشمند اور بروقت فیصلے کرنے والا لیڈر ثابت کرنا ہے‘ ان پر یقینا یہ دبائو ہو گا کہ تحریک انصاف کے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی جائے‘ ان کے سامنے سیاسی و انتظامی حلقے رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں مگر اس ساری صورت حال کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ عوام نے جس تبدیلی کا خواب دیکھا ہے وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں نظر آنی ضروری ہے۔