یہ ایک تاریخی دن تھا۔ اس لحاظ سے کہ پاکستان کی اولین اور قدیم ترین یونیورسٹی کے سابق طلبہ اپنی تنظیم کا اعلان کر رہے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی المینائی برسوں پہلے وجود میں آ جانا چاہیے تھی۔ مگر یہ اعزاز موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کے زمانے میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مجھے حفیظ خاں کا فون آیا چھوٹتے ہی سوال کیا‘ کب پاکستان آئے ہو؟ اس کے ساتھ ہی یادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ معلوم ہوا پنجاب یونیورسٹی کے اس شہرہ آفاق صدر نے اب یونیورسٹی المینائی کی صدارت سنبھال لی ہے اور وہ اسے فعال کرنا چاہتے ہیں۔ حفیظ بھی ایک تاریخ ہے ۔بھٹو صاحب مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد ملک کی قیادت سنبھال چکے تھے۔ ملک میں ایک عجیب فضا تھی ‘امیدیں بھی تھیں اور خوف کی لہریں بھی۔ملک نظریاتی تصادم کے نقطہ عروج پر تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر کے طلبہ سڑکوں پر تھے۔ اسے مورخ کیمپوں کی بغاوت کے طور پر دیکھتا ہے۔ آغاز 68ء میں پیرس میں ہوا تھا۔ پھر یہ پھیلتے پھیلتے امریکہ تک جا پہنچی۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس تحریک کے ریجن سے کیا کیا فلسفیانہ مباحث کھلے‘ جنہوں نے پرانے نظریوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا‘ حتیٰ کہ انقلاب فرانس تک چیلنج ہو گیا۔ اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ یہ ایک تاریخ ساز موڑ تھا ہم جس میں پروان چڑھ رہے تھے۔ یہ قدرت کا ایک عجیب مظہر ہے کہ تیس چالیس برس کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی نمودار ہوتی ہے ‘یہ تحریک ایک ملک میں کسی اور حوالے سے چلتی ہے اور دوسرے ملک میں چلنے والی تحریک کا زمانہ اگرچہ وہی ہوتا ہے مگر اس کی سمت اور مقاصد الگ ہوتے ہیں۔ شاید ایک نسل جب دوسری نسل کو قیادت منتقل کر رہی ہوتی ہے تو اپنی اپنی جغرافیائی حد بندیوں کے اندر اس کا انداز الگ الگ ہوتا ہے۔ مثلاً جب گزشتہ دنوں عرب بہاراںکا زور تھا تو امریکہ میں عین اس وقت وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک چل پڑی تھی‘ یورپ میں نوجوانوں میں تبدیلی کی لہر اٹھی تھی‘ جو برسوں تک جاری رہی۔ اس طرح پیرس کی تحریک نے فرانس اور امریکہ کو جو چاہے دیا ہو‘ ہمارے ہاں اس کا اظہار ایک مختلف انداز میں ہوا۔ یہ ہماری تاریخ کا نازک ترین موڑ تھا ‘واضح نظریاتی تصادم کا نقطہ عروج ۔ آپ یا دائیں بازو سے ہیں یا بائیں بازو سے۔ اس ملک میں ان اصطلاحوں کے بھی منفرد معنی تھے۔ اسلام پسند یا ترقی پسند یہ واضح تقسیم تھی‘ جس میں تنوع کے بہت رنگ تو تھے مگر فرق واضح تھا۔ اس عرصے میں ایوب خاں رخصت ہوئے‘ یحییٰ خاں آئے ‘انتخابات ہوئے‘ ایک معنوں میں ملک کے پہلے انتخابات‘ ملک ٹوٹا‘ مغربی پاکستان میں صوبے بحال ہو چکے تھے مگر یہاں نظریاتی تقسیم اپنی جگہ قائم تھی۔ بھٹو صاحب کو اقتدار ملا تو ایک گروہ نے سمجھا انقلاب آ چکا تھا تو دوسرے گروہ نے سوچا اب انتقال کے کوڑے برسنے والے ہیں۔ بھٹو صاحب کی بڑی مخالف ہوئی تھی۔ ایسے میں مخالفین سوچ رہے تھے کہ بھٹو صاحب چھوڑیں گے نہیں۔ مجھے یاد ہے میں نے ایک مضمون لکھا تھا کہ اس بار بھی نئی جدوجہد کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہو گا۔ دائیں بازو کا جو تھا‘ اس لئے اس طرح سوچ رہا تھا پہلا ہی معرکہ پنجاب یونیورسٹی میں برپا ہوا۔ ایک طرف حفیظ خاں‘ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر اس سے پہلے جہانگیر بدر کالج کے انتخاب دو بار جیت چکے تھے۔ اس وقت ان کی شہرت رائٹ آف سنٹر کی تھی مگر اب کی بار وہ پیپلز پارٹی کے اعلان یافتہ امیدوار تھے وہ ایک بار پہلے بھی یہ انتخاب حافظ ادریس سے 100ووٹوں کے مارجن سے ہار چکے تھے مگر اب وہ حفیظ خاں کے مقابلے میں 400ووٹوں سے ہارے۔ میں نے سرخی لگائی سیاست ہار گئی‘ طلبہ جیت گئے ۔ جاوید ہاشمی اس وقت حفیظ خاں پینل کے سیکرٹری جنرل تھے۔ اس معرکے نے پورے ملک کی فضا بدل دی۔ پنجاب یونیورسٹی نہ صرف پورے ملک میں طلبہ تحریک کی قائد بن گئی۔ بلکہ یہ انتخابات ملک بھر میں دائیں بازو کے عزم نو کی علامت بنے۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا ‘ میری جان‘ تیری جان حفیظ خاں‘ حفیظ خاں۔ یہ سب میں نے یہ بتانے کے لئے لکھا ہے کہ وہ تاریخ کا کون سا موڑ تھا۔ اس کے بعد جاوید ہاشمی‘ فریدپراچہ اور لیاقت بلوچ یہ علم اٹھا کربڑھتے رہے۔ حتیٰ کہ یونیورسٹی یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ میں یہ کالم حفیظ خاں پر لکھ رہا ہوتا تو اور بہت کچھ لکھتا۔ اس وقت صرف یہ بتا رہا ہوں کہ یہ حفیظ خاں پنجاب یونیورسٹی المینائی کے صدر ہیں اور اسی زمانے کے بی اے صابری نائب صدر‘ پنجاب یونیورسٹی کا فیصل آڈیٹوریم کھچا کھچ بھر گیا تو دروازے بند کر دیے گئے۔ باہر دکانوں میں بڑی بڑی سکرینیں لگا کر باقی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ۔جب پاکستان بنا تھا تو اس ملک میں ایک ہی یونیورسٹی تھی۔ پھر یونیورسٹیاں بنتی گئیں مگر اس یونیورسٹی کا نام اپنی جگہ قائم رہا۔ آج صرف شہر لاہور میں اس یونیورسٹی سے نکلنے والی کئی یونیورسٹیاں ہیں۔ مگر ایک زمانہ وہ تھا جب میٹرک کا امتحان بھی یہ یونیورسٹی لیتی تھی۔ اور آج کی بہت سی یونیورسٹیاں اس کے کالج تھے۔ اسے بجا طور پر یونیورسٹیوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ اس نے اس خطے کی تقدیر بدل دی۔ اس نے غالباً تین نوبل انعام یافتہ پیدا کئے ہیں۔ جن میں ایک تو پاکستان کے حصے میں آئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام۔ یہاں اقبال سے فیض تک شاعروں کی ایک فہرست ہے۔ پھر سائنسدانوں ‘ ماہر معاشیات کی ایک لمبی لائن ہے۔ کئی وزرائے اعظم‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بے شمار جج۔ آج کے صدر ڈاکٹر عارف علوی بھی اسی کے المینائی میں سے ہیں۔ انہیں آج آنا تھا۔ مگر بوجوہ آ نہ پائے۔ وہ یہاں کے کالج آف ڈینٹسڑی کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس وقت پورے مغربی پاکستان میں دنداں سازوں کا یہی ایک کالج تھا۔ وہ یہاں کے صدر تھے تو ان سے دوستی ہوئی میں نے ان دنوں ان کا ایک انٹرویوکیا تھا جس کا وہ اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں۔ سو مرا بھی ان سے تعلق کراچی کا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا آغاز لاہور ہی سے ہوا ہے۔ اتنے بڑے مجمع میں بہت سوں کو اسٹیج پر جگہ ملی تھی۔ ہم پہلی صف ہی میں بیٹھنے پر مطمئن تھے اور کہنے کے باوجود اوپر نہ جا رہے تھے کہ آخری لمحے اوپر پہلی قطار میں مزید کرسیاں لگا کر مجھے اور سلمان غنی کو زبردستی بلا لیا گیا۔ ہم دونوں سارے کام چھوڑ چھاڑ کر یہاں اکٹھے ہی آئے تھے اور بہت مست تھے۔ کیسی کیسی یادیں اس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نہ صرف اس نسل کا حصہ رہا ہوں جس نے اس یونیورسٹی میں ملک کی سب سے بڑی نظریاتی جنگ لڑی اور جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں‘ بلکہ دوران تعلیم یہ موقع بھی میسر آیا کہ مرا ڈیپارٹمنٹ اولڈ کیمپس میں تھا اور رہائش نیو کیمپس میں۔ انگریزی ادبیات کا ڈیپارٹمنٹ اس وقت اولڈ کیمپس میں ہوا کرتا تھا اور وہاں کے صرف پانچ طلبہ کو نیو کیمپس میں داخلہ ملتا تھا۔ میں ان خوش قسمتوں میں تھا جنہیں یہ موقع میسر آیا۔ اولڈ کیمپس کے بھی اپنے مزے تھے۔ یہی نہیں کہ انارکلی اور مال روڈ کے پاس تھا۔ یہاں کیا کچھ نہ تھا۔ یونیورسٹی کی اپنی لائبریری جو ان دنوں وہاں پر تھی۔ وائس چانسلر کا دفتر بھی وہیں تھا۔ سینٹ پال جس میں تاریخی جلسے ہوئے۔ اورئنٹل کالج ‘ لاء کالج اور اس کے ساتھ گورنمنٹ کالج اور بے شمار لائبریریاں ‘ پنجاب پبلک لائبریری ‘ دیال سنگھ کالج لائبریری‘ برٹش کونسل(جس کی لائبریری انگریزی ادبیات کے طلبہ کے لئے بڑی نعمت تھی) خود یو ایس آئی ایس کی لائبریری ‘ اس وقت نہ امریکہ کی ہم سے دشمنی تھی نہ ہماری امریکہ سے لڑائی تھی اور شام کو پاک ٹی ہائوس کی زندگی۔ میں اس کے سحر میں کھو گیا ہوں اور نیو کیمپس میں درمیان میں بہتی ہوئی نہر‘ ایک طرف ہوسٹل ‘ دوسری طرف تدریسی شعبے۔ ہم اسے اس وقت بھی دنیا کا خوبصورت ترین کیمپس سمجھتے تھے اور آج بھی وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ یہاں زندگی چمکتی تھی۔ کسی نے نہر میں کشتی رانی کا ذکر کیا ہے۔ ہم تو صرف یہ کرتے گرمیوں کی راتوں کو اپنے سکیے اٹھا کر ان کشتیوں میں آ بیٹھتے اور اس کی رسیاں ڈھیلی کر دیتے۔ درمیان میں ایک ٹرانسٹرہوتا جس پر موسیقی رات کے سکوت میں اور بھی اچھی لگتی اور بہت سی باتیں جن میں ذکر نہیں کر رہا۔ اساتذہ سے ہمارے دوستانہ تعلقات۔ دنیا کو بدل دینے کے خواب اور صرف ایک یہ دھن کہ آنے والے دن ہمارے ہیں۔ میرا خیال ہے ‘ آج میں اتنا ہی لکھ پائوں گا۔ اس تقریب کی تفصیل بھی بیان نہ کرسکوں گا۔ ناسٹلجیا اسے ہی تو کہتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ کراچی میں گزارا ہے۔ اس شہر سے مجھے بڑا پیار ہے۔ میں جب وہاں یونی کیرئن نام کی تنظیم کو سرگرم دیکھتا تو مجھے پنجاب یونیورسٹی بہت یاد آتی۔ اگرچہ وہ بہت محبت سے آگے آگے رکھتے۔ مگر میں سوچتا‘ کیا کبھی میری اپنی یونیورسٹی سے بھی کوئی مژدہ آئے گا۔ آج اس المینائی کا آغاز دیکھ کر میں بہت خوش ہوں۔ یوں سمجھو‘ نشے میں ہوں۔