2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع منڈی بہاوالدین کی کل آبادی سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پورے ضلع میں ایک پوسٹ گریجوایٹ کالج ہے۔ یوں تو ضلع میں بہت ساری پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے کیمپس ہیں اور دوسری سہولیات کے ساتھ ان کے پاس پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی ہے۔ یوں بچوں کے والدین کو یک گونہ اطمینان حاصل ہے۔ مگر ایک سرکاری پوسٹ گریجویٹ کالج کے طلبا اور طالبات کے لیے اس قسم کی’’عیاشی‘‘ کا تصور بھی محال ہے۔بچیوں کو عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے کالج تک پہنچنا پڑتا ہے۔ سڑکوں کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے وقت کا ضیاع الگ مسئلہ ہے۔مین ملکوال منڈی بہائوالدین روڈ کی خستہ حالی ایک دائمی مرض بن چکی ہے۔ ضلع منڈی بہائوالدین کا واحد پوسٹ گرایجوایٹ کالج اس وقت بہت سارے ایسے مسائل کا شکار ہے جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ کالج نہیں کوئی سَلم ایریا Slum Area لگتا ہے۔ یہ ایک احاطہ نہیں ہے غریب پاکستان کی ہو بہو تصویر ہے۔مخدوش بلاک، خستہ عمارت، عدم صفائی اور کھیل کے گراونڈز ناپید اور جو ایک آدھ ہے وہ کسی جوہڑ کی شکل کا۔جیسے پاکستان کی گاڑی اللہ کے سہارے چلے جارہی ہے اسی طرح کالج بھی چل ہی رہا ہے۔ یہ امر خوشی کا باعث ہے کہ ڈگری کالج منڈی بہائوالدین جو اب GPC کہلاتا ہے میں گیارہ مضامین میں باٹنی، کیمسٹری، کمپیوٹر سائنس، اکنامکس، انگریزی، اسلامک سٹیز، میتھ، فزکس، ساسیات، زوالوجی اور بی بی اے میں بی ایس کی کلاسز جاری ہیں۔کالج کی انتظامیہ پرنسپل اور پروفیسرز صاحبان اور دیگر سٹاف کا کمال ہے کہ ناموافق حالات کے باوجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک جہاد ہے جس میں وہ شہید ہیں یا غازی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلی صدی کے آخری سال یعنی 1999 میں تین مضامین میں ایم اے کی کلاسز جاری ہوئی تھیں۔ پوسٹ گرایجویٹ بلاک ایک نئی عمارت ہے۔پہلے یہاں باسکٹ بال کا گراونڈ ہوتا تھا۔ آٹھ ایکڑ پر پھیلا GPC بنیادی طور پر ایم بی ہائی سکول تھا۔ جہاں اب گورنمنٹ ہائی سکول ہے وہ پاکستان بننے سے پہلے خالصہ ہائی سکول تھا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد ایم بی ہائی سکول اس آٹھ ایکڑ کے قطعے سے اس خالصہ ہائی سکول کی جگہ شفٹ کر دیا گیا اور اس جگہ ایم بی انٹر کالج قائم کر دیا گیا۔مشہور زمانہ شعبہ ِ تعلیم کی نیشنلازیشن کے بعد یہی کالج گورنمنٹ کالج ہو گیا۔نیشنلازیشن سے پہلے یہاں بی اے کی کلاسز کا اجرا ہو گیا تھا۔یعنی آٹھ ایکڑ کا ٹکڑا جو بنیادی طور پر ایک ہائی سکول کے لیے تعمیر ہوا تھا اسی میں اب پوسٹ گریجویٹ کلاسز ہو رہی ہیں۔ یہ ایک یو شیپ بلڈنگ تھی جس میں دائیں جانب تین کمرے بی اے کے طلبا کے لیے بائیں جانب دو کمرے انٹر کے لیے مختص تھے۔ عین وسط میں ایک بڑا ہال تھا جو مختلف تقریبات کے لیے مخصوص تھا۔ انٹر اور بی اے کے امتحانات میں کمرہ امتحان میں تبدیل ہو جاتا۔ عام دنوں میں یہاں بھی کلاسز ہوتیں۔آخر میں ایک لائبریری ہوتی تھی۔ایم بی ہائی سکول کے لیے بنائی گئی عمارت جو اب پوسٹ گریجویٹ کالج کے لیے استعمال ہو رہی ہے نہ صرف انتہائی ناکافی ہے بلکہ یہ عمارت خطرناک قرار دی جا چکی ہے۔ اس کے کسی بھی وقت زمیں بوس ہونے کے امکانات ہیں۔جن پرانے کمروں کا ذکر ہوا ہے ان کے آثار موجود ہیں۔ان کو گرا کیوں نہیں دیا جاتا یہ ایچ ای ڈی کے بزرجمہران ہی جانتے ہیں۔وہاں گھاس اور کائی نے خوب بہار جمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی دگرگوں اور مخدوش حالت دیکھ کر اس میں کلاسز نہیں ہوتیں۔اس کے ایک بلاک اور پچھلی جانب گراونڈ میں کچھ کلاس روم تعمیر کیے گئے ہیں۔کسی زمانے میں جو طلبا کے لیے ہوسٹل تھا وہ طلبا کی تعلیم کے لیے مختص کر دی گیا ہے اور بی ایس کی کلاسیں ہوتی ہیں۔جنرل مشرف کے دور میں جب پرویز الٰہی وزیر اعلٰی تھے ان کی ذاتی توجہ اور دلچسپی سے پرانی عمارت کو مرمت کرنے کے لیے سات کروڑ( ستر ملین روپے )کی گرانٹ ملی تھی۔اب تمام طلبا نئی عمارت اور بلاک میں ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 2006 سے پرانی عمارت ناقابل ِ استعمال ہے۔کالج کے عین وسط میں یہ عمارت کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔ یوں تو اس وقت ضلع میں اٹھارہ کالج قائم ہیں جو قادر آباد سے لے کر ملکوال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں دس خواتین کے لیے اور آٹھ میل کالجز ہیں۔منڈی بہائوالدین، قادر آباد، پاہڑیانوالی، پھالیہ، ملکوال، بوسال، بھاگٹ، رکن اور ہریا میں خواتین کالج ہیں۔ان تمام کالجوں میں اساتذہ کی کمی ہے اور جیسے تیسے کام چلایا جا رہا ہے۔ جدید نظری مباحث کی اعلٰی کتب ان کالجوں کی لائبریروں کی زینت بننے کی منتظر ہیں۔کئی کالجوں میں تو نام کی لائبریریاں ہیں۔ ہمیں اس مادر ِ علمی سے اتنا ہی پیار ہے جتنا اولاد کو ماں سے ہو سکتا ہے۔ہماری محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتاوں سے جناب پرویز الہی وزیر اعلٰی سے گزارش ہے کہ ضلع کے واحد گورنمنٹ کے پوسٹ گریجویٹ کالج کی حالت ِ زار کا نوٹس لیں۔یہ ضلع ان کا ہی ہے اور ان کی وہاں ڈھیر ساری رشتہ داریاں بھی ہیں۔ جو مخدوش عمارت ہے اور کالج کے عین وسط میں ہے پنجاب کے محکمہ تعلیم کا منہ چڑا رہی ہے اس کی از سر ِ نو تعمیر کا خیال کریں۔ گیارہ شعبوں میں مطلوبہ اساتذہ کی تعداد پوری کی جائے۔ پک اینڈ ڈراپ سروس کے لیے کم از کم چار بسیں مہیا کی جائیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے یہاں کے طلبا اور طالبات ملک اور شہر میں موجود دوسری یونیوسٹیوں کے طلبا سے تعلیمی میدان میں کیا مقابلہ کریں گے؟