ملک میں پٹرول بحران کے متعلق رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کر دی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحران پٹرولیم ڈویژن کی کوتاہی کے باعث پیدا ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 9آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس وافر تیل ذخائر موجود تھے لیکن جان بوجھ کر سپلائی روکی گئی۔ اس سلسلے میں پٹرولیم ڈویژن کے افسران پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی وہ اس کی ادائیگی میں ناکام رہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات معلوم ہونے پر وزیر اعظم نے تمام کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ 21روز کا ذخیرہ یقینی بنائیں۔ وزیر اعظم نے ذمہ دار افراد کی گرفتاری اور بحران میں ملوث آئل کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ حکم اس لحاظ سے قانونی تقاضوں کے مطابق ہے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں لائسنس کی شرائط کے تحت اس امر کی پابند ہیں کہ وہ 20روز کی ضروریات کے لئے تیل کو ذخیرہ رکھیں۔ اس شرط کا ایک مقصد یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں تیل کی طلب و رسد میں کمی و بیشی سے کوئی دقت نہ پیش آئے۔ حالیہ بحران کے دوران تیل کمپنیاں یہ شرط پوری نہ کر سکیں۔ گزشتہ ہفتے کابینہ کے اجلاس میں متعدد وزراء نے پیٹرولیم بحران پر تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا کہنا ہے کہ یہ ریگولیٹر اداروں کا فرض تھا کہ وہ تیل کا ذخیرہ 20روز تک موجود ہونے کو یقینی بناتے۔ اس پر اوگرا نے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوگرا مارکیٹنگ رولز 2016ء کے تحت اوگرا صرف تیل ذخیرہ کرنے کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کا ذمہ دار ہے۔ تیل کی طلب و رسد کے معاملات دیکھنا پیٹرولیم ڈویژن کا کام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اوگرا اور پیٹرولیم ڈویژن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا کسی بھی وقت معائنہ کر سکیں۔پوری دنیا میں کورونا کی وبا نے صنعتی اور پیداواری عمل کو متاثر کیا ہے۔ اس وبا کے باعث ٹرانسپورٹ‘ ہوا بازی‘ تعمیرات اور عمومی کاروبار بندش کا شکار ہوئے‘ لاک ڈائون نے تیل کی طلب میں کمی کا جواز فراہم کیا۔ امریکہ میں صورت حال یہ رہی کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس خریدا ہوا آئل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔ امریکی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ہنگامی طور پر نئے ذخائر تعمیر کئے۔ بہت سی کمپنیوں نے زیر سمندر ذخائر میں تیل ذخیرہ کیا۔ اس سے امریکہ میں تیل کی قیمتیں پہلی بار منفی سطح پر آ گئیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھایا اور تیل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا۔ دنیا کا ہر وہ ملک جس کی معیشت میں تیل ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس نے کورونا کے باعث تیل کی قیمتوں میں آنے والی کمی کا فائدہ اٹھانے اور تیل ذخائر میں زیادہ گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔تیل پیدا کرنے والے ممالک نے بھی پہلی بار اپنے ذخائر میں اضافہ کیا ہے ،سعودی عرب ،ایران ،کویت ،عرب امارات سمیت کئی ممالک نے اپنے ہاں نئے بنکر تیار کیے تاکہ وہ مستقبل میں ذخیرہ شدہ تیل کو استعمال میں لا کر ماضی کے خسارے کو پورا کر سکیں ۔ پاکستان کے اداروں کی انتظامی مشکل اور کام کرنے کا طریقہ کار عمومی طور پر قومی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ اکثر ادارے کسی بین الاقوامی دبائو کے نتیجے میں بنائے گئے اور یہ ادارے قومی کی بجائے عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں واقع ہونے والی کمی کا کچھ حصہ یقینا عوام تک پہنچا اور تیل کے نرخوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی،حکومت پاکستان نے 40سے 56فیصدپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف پہنچایا لیکن طاقتور مافیا نے اس ریلیف کو یرغمال بنا لیا ،جس کے باعث عوام حکومتی ریلیف سے محروم رہے بلکہ حکومت نے جب پٹرولیم مصنوعات میں کمی کی تو کئی دن تک عوام کو پٹرول مل ہی نہیں سکا ،اب بھی کئی شہروں میں پٹرول نایاب ہے ،اگر کسی جگہ سے مل بھی رہا ہے تو لوگوں کو کئی کئی گھنٹے تک لائنوں میں لگ کر اس کا انتظار کر پڑتا ہے ،وزیر اعظم عمران خان کے ایکشن کے بعد بھی بدستوریہی صورتحال ہے ۔کمپنیوں کو جرمانے کرنے کے ساتھ ان کے لائسنس بھی معطل کیے جائیں تاکہ مستقبل میں وہ دوبارہ گٹھ جوڑ کر کے عوام کو مشکلات سے دوچار نہ کر سکیں ۔ حکومت نے جب تیل کے نرخوں میں مسلسل ہونے والی کمی کے فوائد مہنگائی کے ستائے عوام تک منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو ہمارے اپنے سرکاری افسران اور تیل کمپنیوں کی نااہلی اور بدنیتی سد راہ ہو گئی۔وزیر اعظم کے لئے یہ ایک مشکل ہدف ہے کہ وہ بگڑتی معیشت‘ بھارت کی سازشوں‘تنازع کشمیر کے حل‘ کورونا کے خاتمے‘بدعنوان حکمران اشرافیہ کے احتساب اور عالمی ساہوکاروں کے ہاتھ میں کھیلنے والے قومی اداروں کا نظم درست کرنے کی بیک وقت کوشش کریں لیکن بہرحال یہ کام حکومت کو ہی کرنا ہے کیونکہ حالات کے مارے عوام کی توقعات کا دامن اس سے بندھا ہے۔ وزراء ملک میں نئے تیل ذخائر کی تعمیر کرنے اور سٹریٹجک ذخائر کی مدت میں اضافے پر توجہ دیں۔ جن افراد کی وجہ سے پاکستان کے عوام مشکلات سے دوچار ہوئے ان کو عہدوں سے ہٹا کر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذخائر کا ازسر نو معائنہ کیا جائے۔ اگر کسی کمپنی کے پاس مطلوبہ گنجائش نہیں تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے۔ بحران کے ذمہ داروں کے خلاف مثالی کارروائی کئے بغیر مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنا محال ہو گا۔