ملک کے 10 بڑے شہروں میں 28 مقامات سے پولیو وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ پولیو مرض والدین کی غفلت اور لاپرواہی سے بچوں کو لاحق ہوتا ہے۔ والدین کی چھوٹی سی غلطی اور غفلت کی بچوں کو زندگی بھر معذوری کی شکل میں سزا ملتی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت دنیا میں تین ملک باقی ہیں جن میں یہ موذی مرض پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں کے پانی میں اس موذی مرض کے جراثیم موجود ہیں لیکن ایک ایٹمی حکومت اس مرض پر قابو پانے سے قاصر ہے۔ دراصل مسلسل جھوٹے پراپیگنڈے نے والدین کو حفاظتی قطروں سے دور کیا ہے۔ سندھ میں 17 مقامات پر پولیو وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایک الارمنگ صورتحال ہے۔ پنجاب میں بھی صورتحال بے قابو ہے۔ مکرر عرض ہے کہ محکمہ صحت اپنے فرائض کی انجام دہی میں مسلسل ناکام ہے۔ وفاقی وزیر صحت کی تبدیلی کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ وفاق نے پولیو کے لئے خصوصی مشیر مقرر کر رکھا ہے۔ تمام تر سرکاری مشینری کے باوجود وہ بھی اپنے فرائض میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت مدارس عربیہ کے پانچوں وفاق سے رابطہ کرے اور وزارت مذہبی امور چاروں صوبوں کے اوقاف کے ذریعے سرکاری اور غیر سرکاری علماء کرام سے رابطہ کرکے منبر و محراب سے اس موذی مرض کے خلاف آواز بلند کرائیںتاکہ لوگوں کے دلوں میں پولیو وائرس کے بارے جو خدشات ہیں انہیں دور کیا جا سکے۔ جب تک والدین کو پولیو قطروں کی افادیت سے آگاہ نہیں کیا جاتا تب تک اس موذی مرض پر قابو پانا مشکل نظر آتا ہے۔