وزیر اعظم عمران خان نے میانوالی میں ماڈل پولیس سٹیشن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اچھا کام کرے تو ملک کی تقدیر بدل جاتی ہے‘ ماڈل پولیس سٹیشن نئی سوچ ہے‘ یہ نیا پاکستان ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تھانہ کچہری کی سیاست اور پٹوار کلچر نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ انہوں نے پنجاب پولیس کو خیبر پختونخواہ پولیس جیسا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ ماڈل پولیس سٹیشن کے افتتاح کے بعد پنجاب میں مزید 28تھانے ماڈل پولیس سٹیشن قرار دیے گئے ہیں۔ سیاسی مداخلت نے عوامی خدمت کے جس محکمے کو سب سے زیادہ تباہ کیا بلا شبہ وہ پولیس ہے۔ پورے ملک میں بااثر اور طاقتور افراد نے ذاتی گن مینوں کی شکل میں شہریوں کو خوفزدہ کرنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ جہاں ان کو رکاوٹ پیش آئے ذاتی محافظ رکاوٹ دور کر دیتے ہیں۔ کچھ معاملات میں یہ بااثر شخصیات خود کو منظر عام پر لانا پسند نہیں کرتیں۔ اس صورت حال میں وہ مقامی پولیس کا تعاون حاصل کرتی ہیں اور مخالفین کے خلاف چوری‘ ڈکیتی ‘ زنا وغیرہ جیسے مقدمات درج کرا دیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے درست فرمایا کہ تھانہ کچہری کی سیاست نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس سیاست نے رسہ گیروں‘ جرائم پیشہ اور ریاستی وسائل کا غلط استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ہر برس سرکاری سطح پر مختلف محکموں کے خلاف شکایات کا جو ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ اس میں پولیس سرفہرست ہے۔ جرائم سے نمٹنے کی استعداد کی بات ہو‘ مستعدی کا ذکر ہو یا پھر رویہ کا معاملہ ہو پولیس ہمیشہ عوام کے لئے زحمت کا سبب ثابت ہوئی۔ بہت کم واقعات ایسے ہیں جب پولیس نے اپنے فرائض پیشہ وارانہ دیانت داری سے انجام دے کر کسی مظلوم کی مدد کی ہو۔ جو حکومت آتی ہے وہ عوام کی دکھتی رگ سے واقف ہوتی ہے‘ اعلان کیا جاتاہے کہ پولیس کلچر اور تھانہ کلچر تبدیل کر دیا جائے گا۔ دو چار دن ایسے نعرے لگتے ہیں‘ چند افسران کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ہوتا ہے اور پھر سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں سندھ حکومت نے صوبے میں کام کرنے والے تمام پولیس شکایات سنٹرز سے چھ ماہ کی کارکردگی رپورٹ طلب کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایف آئی آر کے عدم اندراج کی 457شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 356کا ازالہ کر دیا گیا۔101زیر التواء ہیں‘55من گھڑت‘13غیر متعلقہ شکایات ثابت ہوئیں ۔اس عرصے میں 8پولیس اہلکاروں کو معمولی سزا دی گئی۔ پولیس کے برتائو اور اختیارات سے تجاوز کی 1647شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے 986شکایات کا ازالہ کیا گیا‘106زیر التواء تھیں۔ 6شکایات کو من گھڑت قرار دیا گیا جبکہ 14غیر متعلقہ قرار پائیں۔ رپورٹ میں بدعنوانی سے متعلق 622شکایات ملیں‘ مقدمات کی ناقص تفتیش کی 133اور پولیس کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی 183شکایات ملیں۔ پنجاب میں پولیس کی حالت باقی تمام صوبوں سے بدتر رہی ہے۔ سابق حکمرانوں نے پولیس کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی چار رہائش گاہوں پر دو ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے۔2014ء میں سانحہ ماڈل ٹائون پیش آیا جس میں پولیس کے ہاتھوں چودہ معصوم افراد کی جانیں گئیں۔ گزشتہ برس ساہیوال میں پولیس کی خصوصی ٹیم نے غلط معلومات پر کارروائی کی اور تین معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور ایک دوست کو گولیاں مار دیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب پولیس کے ہاتھوں پریشان کوئی مظلوم احتجاج نہ کرتا ہو۔ ایسے بہت سے واقعات ریکارڈ پر ہیں جن میں داد رسی نہ ہونے پر مظلوم نے خود کو پولیس تھانے کے سامنے آگ لگا لی۔ پنجاب میں پولیس پر جو بڑے الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں قبضہ اور قحبہ خانوں کی سرپرستی‘ منشیات فروشوں سے شراکت‘ سیاستدانوں کے کہنے پر شہریوں کے خلاف مقدمات کا اندراج‘ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنا اور تھانوں میں شریف شہریوں کی بجائے جرائم پیشہ افراد کو اہمیت ملنا ہے۔تحریک انصاف مرکز میں برسر اقتدار آئی تو وزیر اعظم عمران خان نے پولیس نظام عوام دوست بنانے کی بات کی۔ تحریک انصاف پولیس اصلاحات کے ضمن میں بعض قابل قدر اقدامات خیبر پختوخواہ میں کر چکی تھی اور عوام نے ان فیصلوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا لہٰذا امید بندھی کہ بلوچستان‘ سندھ اور پنجاب کی پولیس کا رویہ بدلنے کے لئے جلد موثر تدابیر اختیار کی جائیں گی۔ وزیر اعظم نے شروع میں نیک نام ریٹائرڈ پولیس افسر ناصر خان درانی کو پنجاب میں اصلاحات لانے پر مامور کیا مگر نامعلوم وجوہات کے باعث وزیر اعظم ناصر خان درانی سے پنجاب میں کام نہ لے سکے۔ وزیر اعظم نے پولیس کے خلاف آن لائن شکایات درج کرنے کا نظام متعارف کرایا ‘ اس نظام کی کارکردگی سرکاری دعوئوں کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ اکثر معاملات میں پولیس افسران غلط بیانی کر کے شکایات دور کرنے کی رپورٹ دیتے رہے ہیں۔پولیس میں یقینا اچھے‘ دیانت دار‘ بہادر اور قانون پر عمل پیرا افسران و اہلکاروں کی خاص تعداد ہے مگر بطور فورس اس کی شناخت کے ساتھ ظلم ناانصافی اور بدعنوانی جیسی منفی صفات جڑ چکی ہیں۔ پولیس ناکہ ہو‘ تھانے کا عملہ ہو یا کسی معاملے میں پولیس رپورٹ کی ضرورت کے تحت رابطہ کرنا ہو پولیس اہلکاروں کی مایوس کن تربیت سے واسطہ پڑتاہے۔ نظام کو آن لائن کرنا‘ جدید گاڑیاں اور مواصلاتی نظام فراہم کرنے اور بہترین اسلحہ مہیا کرنے کے باوجود پولیس کی کارکردگی میں بہتری نہیں آ رہی تو اس کا مطلب ہے کہ اصلاح احوال کی تدابیر میں خرابی ہے۔ ماڈل پولیس سٹیشن کا تصور مثالی کارکردگی سے منسلک ہے۔ شاندار عمارتوں اور صاف ستھرے ماحول میں اگر عوامی خدمت کے جذبے اور تربیت سے محروم اہلکار ہی بٹھا دیے گئے تو یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہو سکتی ہے۔