گاڑیاں چوری کرنے والے بلا خوف مالکان کو اوکاڑہ ‘ دیپالپور اور ساہیوال بلا کر دو لاکھ روپے کیش لے کر واپس کرنے لگے ہیں جو پولیس اور سیف سٹی پراجیکٹ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک بھر خصوصاً پنجاب سے گاڑیاں چوری ہو کر فوراً محفوظ مقام تک پہنچ جاتی ہیں جبکہ پولیس حکام اس کے بارے لاعلم ہوتے ہیں۔ اب یہ عقدہ کھلا ہے کہ ملزمان گاڑیاں چوری کر کے محفوظ مقام پر کچھ دن رکھتے ہیں بعدازاں وہ گاڑی کے مالکان سے خود ہی رابطہ کر کے ساز باز کرتے ہیں اور 2لاکھ سے اڑھائی لاکھ روپے وصول کر کے گاڑی واپس کر دی جاتی ہے۔ متاثرہ افراد نے پولیس اور اینٹی کار لفٹنگ حکام سے رابطہ کر کے انہیں وہ موبائل نمبر بھی مہیا کیا ہے جس سے رابطہ کر کے انہیں پیسے دینے کا کہا جاتا ہے لیکن انتظامیہ ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ ملزمان مالکان سے رابطہ کر کے انہیں پیسے ادا کرنے کا کہتے ہیں۔ لیکن پولیس انہیں گرفتار نہیںکرتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو پولیس حکام چوروں سے ملے ہوئے ہیں اور مالکان ایف آئی آر میں لکھے نمبرملزمان کو خود فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ ساز باز کر کے رقم بٹوریں اور ان کا حصہ انہیں دے کر اپنا حصہ لے اڑیں۔ دو چوری شدہ گاڑیوں کی پیسوں کے عوض اوکاڑہ میں حوالگی سے یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ پولیس کسی نہ کسی سطح پر ملزمان سے ملی ہوئی ہے‘ آئی جی پنجاب اس معاملے کی خود نگرانی کریں اور ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے خصوصی دلچسپی لیں‘ اس وقت پنجاب بھر سے گاڑیوں کی چوری میں اضافہ ہو چکا ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ چور گاڑیوں کو بذریعہ جی ٹی روڈ یا موٹر وے پشاور منتقل کریں اور پورے راستے میں پولیس سے ان کا واسطہ نہ پڑے۔ جبکہ عام شہریوں کو تنگ کرنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ پر ناکے لگا رکھے ہوتے ہیں آئی جی پنجاب چوروں سے ملی ہوئی کالی بھیڑوں کا صفایا کریں۔