پاکستان اور ازبکستان نے ایک ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے گا اور دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مزید قریب آنے کی ترغیب ملے گی۔ اِس معاہدے پر جمعہ 24 فروری کو ازبکستان میں ہونے والے تجارتی، اقتصادی اور سائنسی تکنیکی تعاون سے متعلق پاکستان-ازبکستان بین الحکومتی کمیشن (IGC) کے 8ویں اجلاس کے دوران دستخط کیے گئے ہیں۔ آئی جی سی اِجلاس کی مشترکہ صدارت ازبکستان کے سرمایہ کاری، صنعت اور تجارت کے وزیر لازیز قادرتوف اور پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کی۔ اِجلاس میں بنیادی طور پر تجارت اور بینکنگ، صنعتوں اور پیداوار، سرمایہ کاری، ٹیکسٹائل کی صنعت، توانائی، تیل اور قدرتی وسائل، نقل و حمل اور مواصلات، زراعت اور سیاحت اور ثقافت کی ترقی سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی۔ پاکستان دنیا بھر میں اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لیے، پاکستان نے اپنی ترجیحات جیو اسٹریٹجک سے جیو اکنامکس کی طرف موڑ دی ہیں۔ اِس تناظر میں پاکستان ازبکستان کے ساتھ ، جو وسطی ایشیا کا ایک بڑا ملک ہے، مضبوط تجارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ازبکستان ایک ممکنہ تجارتی شراکت دار بن سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک مسلمانوں اور ان کے رہنماؤں کی مشترکہ تاریخ اور ثقافت کے حامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران دونوں ممالک کی قیادت کے ایک دوسرے کے دوروں اور ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کو دیکھتے ہوئے، تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں پر محیط دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ تجارتی معاہدہ درست سمت اٹھایا گیا ایک مثبت قدم ہے جو دونوں ممالک کے لیے مفید ثابت ہوگا کیونکہ پاکستان کو درپیش اِقتصادی مسائل کے تناظر میں سرمایہ کاری کا کوئی بھی موقع پاکستان میں معاشی بحالی اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے مددگار ثابت جسے اِس وقت ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے۔ ازبکستان جو کہ اس وقت غیر ملکی تجارت کے لیے ایرانی بندرگاہ بندر عباس پر انحصار کرتا ہے، دوسرے متبادل کی تلاش میں ہے اور کم فاصلے، سامان کی نقل و حرکت کی کم لاگت اور کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستانی بندرگاہوں کو ترجیح دے رہا ہے۔ ازبکستان، پاکستان کے ساتھ دو آپشنز پر کام کر رہا ہے۔ پہلا ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ہے جبکہ دوسرا چین کے راستے زمینی راستہ ہے۔ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے فروری 2021 میں تقریباً 600 کلومیٹر طویل مزار شریف-کابل-پشاور ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے تاشقند میں ایک روڈ میپ پر دستخط کیے تھے۔ اس منصوبے کو 4.8 بلین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہونے میں پانچ سال لگیں گے جبکہ اِس کو عالمی بینک سمیت بین الاقوامی قرض دینے والی ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اَخباری اِطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان وَسطی اِیشیائی ممالک کے لیے خصوصی ٹرمینلز اور ان ممالک سے برآمدات کے لیے خصوصی ہینڈلنگ کی سہولت تعمیر کر رہی ہے تاکہ سامان کی ترسیل میں غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا جولائی 2021 میں ازبکستان کا دورہ اور مارچ 2022 میں ازبک صدر شوکت مرزیوئیف کا دورہ پاکستان اور پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو بڑھانے میں سنجیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے قبل ازبک وزیر خارجہ ڈاکٹر عبدالعزیز کاملوف نے 9-10 مارچ 2021 کو پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔ ان دوروں کے دوران دونوں فریقین نے باہمی تعلقات کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان اور ازبکستان زراعت پر مبنی معیشتیں ہیں۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے تجربات سے بہتر اِستفادہ کر سکتے ہیں اور متعلقہ شعبوں میں اپنی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کپاس پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کو کپاس کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں جہاں پاکستانی کسانوں کا مالی نقصان ہورہا ہے وہیں پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان کو زرعی شعبے میں ازبکستان کی مہارت سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر کپاس کے بیجوں پر تحقیق میں تعاون سے ایسے بیج تیار کیے جاسکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتے ہوں۔ مزید برآں ازبکستان کو زرعی آلات کی تیاری میں مہارت حاصل ہے اور پاکستان زرعی آلات کی اسمبلی میں ازبکستان سے اِستفادہ کرسکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوف نے مارچ 2022 میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان سے پشاور، کابل اور مزار شریف کے راستے ازبکستان تک ریلوے کے منصوبے میں اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا جسے علاقائی رابطے کو بڑھانے میں ایک اہم جزو کی حیثیت حاصل ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس منصوبے کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکے۔ پاکستان اور ازبکستان برادر مسلم ممالک ہیں۔ اَگرچہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو بڑھانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں وقت لگ سکتا ہے جب کہ دونوں ممالک کی معیشتیں ایک جیسی مصنوعات اور زراعت پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے دو طرفہ تجارت کے امکانات کا کسی حد تک محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور ازبکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت میں پاکستان کے لیے 9.14 ملین ڈالر اور ازبکستان کے لیے 6.98 ملین ڈالر تک پہنچنے کی توقع تھی۔ اَلبتہ دونوں ملکوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے حالیہ 1 بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے کے بعد دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلووں میں خاطر خواہ اِضافہ کے ساتھ نمایاں فروغ کی امید کی جاسکتی ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی َاشد ضرورت ہے۔