عبدالرحمن خان نے ملتان سے دو ’’کلپ‘‘ بھیجے ‘ حسن اتفاق کہیے کہ دونوں ایسے موضوعات پر تھے جن پر یہ کالم لکھنے کا ارادہ تھا‘ ان اقتباسات نے کام زیادہ واضح اور آسان بنا دیا‘ ایک اقتباس‘ نصیرالدین شاہ والے ڈرامے غالب کا ہے اور دوسرا عمران خان کی تقریر کا بہت ہی مختصر اقتباس جس میں آزادی صحافت پر تبصرہ کیا گیا‘ دونوں ’’حسب حال ہیں‘‘ ملاحظہ ہوں۔ غالب کہتے ہیں‘بادشاہ قلعے میں حکومت کلکتے میں‘ جب سے ’’کمپنی بہادر‘‘ آیا ہے‘ کہیں کوئی شہر بک رہا ہے کہیں ریاست بک رہی ہے‘کہیں سپاہیوں کی ٹکڑیاں بیچی جا رہی ہیں‘ کہیں خریدی جا رہی ہیں‘ یہ کیسے سوداگر آئے ہیں اس ملک میں؟ سارا ملک پنساری کی دکان بن گیا ہے‘ معلوم نہ تھا کہ اتنا کچھ ہے گھر میں بیچنے کے لئے‘ زمیں سے لے کر ضمیر تک سب بک رہا ہے‘ سب بکتا جا رہا ہے‘ ایک سو چھیاسٹھ(166) برس پہلے برطانیہ کے بادشاہ کی مدد اور حمایت سے بننے بلکہ مسلط ہو جانے والی حکومت جو کمپنی بہادر کی حکومت کہلاتی تھی‘ ڈیڑھ صدی سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد برطانیہ میں بیٹھے ایک مفرور مجرم کی منشا اور مرضی سے مسلط کی گئی امپورٹڈ پاکستانی حکومت کے بارے غور کیے بیٹھے ’’نام نہاد‘‘ حکمران اسلام آباد میں ہے حکومت چلانے کے احکامات ’’برطانیہ‘‘ ہی سے دیے جا رہے ہیں وہی احکامات ‘ ویسے ہی اقدامات‘ امپورٹڈ حکومت کے عہد میں بھی کہیں کوئی شریک رہا ہے‘کہیں ریاست کے ادارے‘ زمینیں‘ عہدے‘ ہوائی اڈے ‘ شاہراہیں‘ عمارتیں آج بھی زمین سے لے کر ضمیر تک سب بک رہا‘ سب بکتا جا رہا ہے ‘ سارا ملک پھر سے پنساری کی دکان بن گیا ہے‘ اس دور کی خوش قسمتی کہ مسلط کی گئی غلامی پر احتجاج کی آواز اور ماضی مرحوم کا نوحہ لکھنے کو کوئی غالب تو تھا‘ آج رضا کارانہ غلامی پر کچھ کہنے کو کوئی غالب ہے نہ آنسو بہانے کو حالیؔ زندہ رہا ہے۔ دوسرا مختصر اقتباس عمران خاں کا ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیے‘ قوم ان سارے صحافیوں کی طرف دیکھ رہی ہے‘ میڈیا ہائوسز کی طرف دیکھ رہی ہے جنہوں نے ہمارے دور میں تو پورا جہاد شروع کر رکھا تھا‘ آزادی صحافت کے لئے جہاد‘ چھوٹی سی بات پر گالیاں بھی ہمیں پڑ رہی ہوتی تھیں ہمیں کہتے تھے ہم میڈیا پر بڑی سختی کر رہے ہیں‘ ذرا آپ خود بھی موازنہ کریں تو قوم تو کر ہی رہی ہے‘ یہ وقت تو گزر جائیگا قوم یہ سب کچھ یاد رکھے گی کہ کون لوگ اس وقت کھڑے ہوئے تھے‘ جو شہید ہو گئے ،اور چار جرنلسٹ جو ملک سے باہر چلے گئے لیکن انہوں نے کمپرومائز نہیں کیا‘ وہ کسی پریشر(دبائو) میں آ کر راہ حق سے نہیں اترے ، اور وہ جن کے بڑے نام ہیں صحافت کے پرانے ستون قوم ان کو بھی دیکھ رہی ہے جو کام کر رہے ہیں اور ان کو بھی جن کے ضمیر مر چکے ہیں۔ایک سو چھیاسٹھ برس پہلے کمپنی بہادر اور پھر براہ راست برطانوی راج اس عہد غلامی میں کیا کیا لوگ تھے۔سولی پر لٹکے اور وہ جو قوم کی آواز بنے‘ ظلم و جبر کی حکومت کے خلاف کبھی خاموشی اختیار نہ کی مصلحت کا شکار نہ غالب‘ حالی‘ اکبر اور اقبال پر ہی کیا بس ہے‘ ہندو صحافی‘ سکھ لکھاری‘ مسلم قلم کار‘ مجلس احرار کے خطیب‘ جانثار مجاہد دیو بند کے علماء ‘ ابوالکلام سے ظفر علی خاں تک اتنی طویل فہرست ہے کہ فقط نام لکھنے پر پوری کتاب رقم ہو جائے‘ قیام پاکستان کے بعد بھی ایوب خاں کی ڈکٹیٹر شپ‘ یحییٰ خاں کا مارشل لائ‘ بھٹو کا ظلم و جبر‘ ضیاء الحق کی حکومت میں بائیں بازو کے کارکن اور مالکان صحافیوں کی قربانیاں‘ داد و عیش اور ترغیب و لالچ کے زمانے جو ضیاء الحق کے بعد سے ابھی تک چلے آ رہے‘ کیا کیا لوگ تھے جو بھوک اور تنگی کے باوجود اپنا دامن صاف بچاکے لے آئے خاموش رہے‘ ہتھیار ڈالے نہ ظلم و جبر پر ڈر کے بھاگے‘ مجیب الرحمن شامی‘ الطاف حسن قریشی تو کل کی بات ہے‘ ان سے ذرا پہلے مجیب نظامی‘ حمید نظامی ‘ آغا شورش کاشمیری‘ نسیم حجازی ‘ ظہور عالم شہید‘ عبدالرشید ارشد حتیٰ کہ الطاف گوہر بھی لکھنے بولنے پر جیل گزار آئے‘ بائیں بازو کے صحافیوں نے بھی قلم کی آبرو پر حرف آنے نہیں دیا اور مولانا صلاح الدین بھی تھے بے وقت چلے گئے اس عہد خاموشاں میں ان کی اذان حق گونجتی۔ ایوب خان کا دبدبہ‘ کالاغ باغ کا قہر‘ یحییٰ خان کا مارشل لائ‘ بھٹو کی سفاکی کو ہنستے کھیلتے بھگت لئے‘ جیل کاٹی ‘ پریس ضبط‘ اخبارات و رسائل کی بندش‘ اشتہارات بند کر کے بھوکوں مارنے کے حربے سب کچھ جرأت ‘ بہادری ‘ صبر اور ثابت قدمی سے جھیل لئے‘ ضیاء الحق کو منہ در منہ جواب دیا۔مشرف کی بھد اڑا دی‘ وہ صف شکن بہادر صحافی اور ان کی قلمکار برادری سب کیا ہوئے؟ میڈیانے دم سادھ لیا‘ کارکن صحافی نظریں نیچے کئے گوشہ عافیت کے ہو لئے‘ لمبے لمبے بھاشن دینے والے عجب کرپشن‘ غضب کہانی کہتے کہتے گہری نیندوں چلے گئے‘ ہمارے وہ دوست جو ایوان وزیر اعظم میں عمران خاں کے روبرو اس کا گریباں پکڑنے کی للکار بن کے آئے تھے‘ ہم نے ان کے ہاتھوں میں سفاک حکمرانوں کے گریبانوں کی دھجیاں دیکھنے کے منتظر رہے‘روس کی کمیونسٹ حکومتوں کی بربریت کے دور میں ایک لطیفہ مشہور ہوا‘ ایک امریکی اخباری کارکن اور روسی دانشور کی ملاقات ہوئی امریکی اخبار نویس نے امریکہ میں شہری آزادیوں ‘ اظہار خیال کی بے باکیوں کا ذکر کرتے ہوئے فخر کے ساتھ روسی دانشور سے کہا میں وائٹ ہائوس کے سامنے امریکی صدر کو ان کی پالیسیوں کے خلاف تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہوں اور پورے امریکہ میں کوئی نہیں جو میری اس آزاد روی پر مجھے روک ٹوک کر سکے‘ دنیا کا سب سے طاقتور اور سب سے بڑی اور خوفناک ریاست کا حکمران ہماری آزادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا‘ روسی دانشور نے جواباً کہا یہ کون سی بڑی بات ہے جس پر تم ڈھینگے مار رہے ہو‘ میں جب چاہوں روسی صدارتی محل کے صدر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر تمہاری طرح امریکی صدر پر خالی تنقید ہی نہیں‘امریکی صدر بلکہ پوری امریکی ریاست کو گندی گالیاں تک دے سکتا ہوں مجھے بھی کچھ نہیں کہا جائے بلکہ ممکن ہے کہ اس جرأت پر مجھے تمغے سے نوازا اور انعامات سے سرفراز کیا جائے۔ بیرسٹر محسن صدیقی‘ قائد اعظم کے پیروکار تھے‘ مسلم لیگ کو زمانہ طالب علم میں اپنایا‘ پاکستان ہجرت کی‘ کراچی کے میر بنے‘ مسلم لیگ کے سیکرٹری بھی رہے‘ سینٹ میں ہمارے رفیق کار تھے‘ سونے ایسی رنگت‘ سونے کی طرح خالص دل‘ نیک نیت اب مسلم لیگ کی جو حالت تھی اس پر کڑھتے رہتے مگر تھے مسلم لیگی‘ ایک دن عرض کیا صدیقی صاحب ‘ قائد اعظم اللہ کو پیارے ہوئے‘ لیاقت علی بھی گئے‘ مسلم لیگ پیر پگارہ کے بھی بس کی نہ رہی‘ ان کے ہاتھ میں بھی ایک دھجی رہ گئی‘ اس اجڑی پجڑی بے راہ مسلم لیگ میں کیا ڈھونڈتے ہیں‘ بولے ہم نے جوانی میں لیگ نامی خوبرو دوشیزہ کے ساتھ عہد وفا باندھا تھا‘ بھلی مانس‘ شرمیلی‘ پابند صوم و صلوٰۃ‘ بڑھاپے میں بے راہ ہو گئی۔ یہی حال ہمارے صف شکن دائیں بازو کے صحافیوں کا بھٹو کی نظریاتی مخالفت میں ساری توانائی شریف خاندان کی نذر کر دی‘ اب وہ جیسے بھی محسن صدیقی کی طرح یہ بھی جوانی کا عہد وفا لئے بیٹھے‘ ارشد شریف رہے نہ رہے‘ عمران ریاض ہو نہ ہو‘ ہمارا عہد وفا زندہ ہے۔