رمضان المبارک کی برکات کے نزول میں اگرچہ ابھی ڈیڑھ ماہ باقی ہے لیکن اس جلیل القدر مہمان کی آمد کے غلغلے ابھی سے شروع ہیں۔ پیر نورالحق قادری نے قوم کو امید دلائی ہے کہ اس مرتبہ پورے ملک میں رمضان اور عید ایک ہوگی‘ اب کہ وہ بات نہیں ہوگی کہ پٹھان جانے‘ یا رمضان جانے۔ یہ بات انہوں نے مولانا پوپلزئی کے شہر پشاور میں اس وقت کہی جب ان کے پہلو میں نئی نویلی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا سید عبدالخبیر آزاد اور دیگر عمائدین بھی موجود تھے۔ گزشتہ ہفتے چیئرمین رویت ہلال کمیٹی نے بھی مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے مسجد قاسم خان میں ملاقات کی۔ چیئرمین موصوف بھی اس پر بڑے پرجوش اور پرامید ہیں کہ ان کے اور مولانا پوپلزئی کے ’’ایک صفحہ‘‘ پر آنے کے امکانات روشن ہیں۔ مولانا آزاد رابطے اور مکالمے کے مضبوط آدمی ہیں ۔ یہ خوبی انہوں نے اپنے والد گرامی سے وراثت میں پائی۔ کسی کا ہو جانا یا کسی کو اپنا کر لینا۔ کسی کے پیچھے چلنے یا دوسروں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کا داعیہ اور جذبہ ان کے اندر بدرجہ اتم موجود ہے‘ دوسری طرف مفتی پوپلزئی بھی بیانئے اور مذاکرے میں ’’تگڑے‘‘ ہیں۔ اپنا مقدمہ پیش کرنے کے فن میں پوری طرح تاک۔ بادی النظر میں پیر نورالحق قادری کی پشین گوئی پوری ہونے کے امکانات روشن ہیں کیونکہ مولانا آزاد اپنی کمیٹی سمیت رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے 29 شعبان المعظم کو پشاور جانے اور مولانا پوپلزئی کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے پرعزم ہیں‘ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تو 29 شعبان سمجھ کر جائیں اور ادھر پشاور میں یکم رمضان ہو چکا ہو ۔کیونکہ ایسا ہی ایک حادثہ مولانا محمد عبداللہ جو اسلام آباد کی لال مسجد کے بانیان میں سے تھے کے ساتھ بطور چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پیش آ چکا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ 29 شعبان 1418ھ کو ،جب وہ رمضان کا چاند دیکھنے کی تیاری میں تھے ،تو سرحد میں یکم رمضان ہو چکی تھی‘ اس لیے کہ وہاں 28 شعبان کو 30 آدمیوں کے چاند دیکھنے کی شہادت موصول ہو چکی تھی‘ اسی بنا پر وہاں مقامی کمیٹی نے روزہ رکھنے کا اعلان کردیا تھا۔ مولانا موصوف نے تو اس معاملہ پر مزید ’’خیال آرائی‘‘ بھی فرمائی تھی، جس کی تفصیل کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ ویسے مولانا محمد عبداللہ صاحبؒ اور ان کے چند ایک ہم منصب جن میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ اور مولانا احترام الحق تھانویؒ کا اور مسجد قاسم خان والوں کا مکتب فکر بھی ایک ہی تھا لیکن ہم آہنگی اور باہمی مفاہمت عمل میں نہ آ سکی۔بہرحال اب کہ حسنِ ظن رکھا جانا چاہیے اور امید واثق یہ ادارہ دینی اصابت‘ اتحاد امت‘ قومی یکجہتی اور ملی استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا۔ انشاء اللہ ویسے پیر صاحب نے یہ کوشش تو تقریباً دو سال پہلے بھی کی تھی، جب انہوں نے محترم مفتی منیب الرحمن اور جناب مفتی پوپلزئی کو اسلام آباد میں وزارت مذہبی امور کے کمیٹی روم میں ایک میز پر اکٹھا کیا تھا۔ مضبوط دفتری میز درمیان میں موجود تھی۔ تاہم اختتام… اعلیٰ ظرف علما کی طرح خوشگوار اور مسکراہٹوں کے ساتھ ہوا۔ پیر صاحب ازخود چونکہ مجلس کے آدمی اور علما کے مزاج کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ… کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مرقع… فرمانے لگے: طرفین کی ہم آہنگی میں پوری قوم کے ساتھ سب سے زیادہ مجھے فائدہ… اسلام آباد میں تراویح اور عید مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق کرتا ہوں اور ادھر پشاور لنڈی کوتل میں میرا حلقہ احباب مولانا پوپلزئی کے ساتھ…مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو درپیش چیلنجز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں وفاقیت‘ آفاقیت اور ہمہ گیریت کے سارے لوازمات کے باوجود اس کی دینی ثقاہت اور سرکاری وجاہت کے باوصف خیبرپختونخوا میں اس کو رسوخ میسر نہیں آ سکا۔ حالانکہ مرکزی کمیٹی ہمیشہ تمام مکاتب فکر کی مسلمہ شخصیات سے آراستہ اور گزشتہ عرصے میں تو فلکیات اور موسمیات کے ماہرین بھی ممبر کے طور پر موجود ،اس کے ساتھ تمام صوبوں میں زونل رویت ہلال کمیٹیاں بھی سرگرم۔ یعنی بلاشبہ یہ کمیٹی حکومت پاکستان کی نمائندہ اور قمری مہینے کی رویت اور تقویم کے حوالے سے سب سے معتبر ادارہ لیکن ۔۔۔۔۔بعض اوقات تو خیبرپختونخوا حکومت، اپنی ہی مرکزی حکومت کے اس سرکاری ادارے کے فیصلے سے اعراض کے درپے نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس مقامی کمیٹی کو کوئی سرکاری اسناد میسر نہیں‘ ویسے تو ایسی ہی صورتحال سائنس ٹیکنالوجی کی وزارت کی طرف سے بھی پیش آ چکی ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو مفاہمت‘ تحمل اور برداشت کے ساتھ، جس ادارے کا جو دائرہ کار بنیادی فریضہ اور ذمہ داری ہے ،اس کو سمجھنا اور تسلیم کرنا چاہیے۔ رویت ہلال کا موجودہ نظام گزشتہ نصف صدی سے چونکہ اسمبلی ’’ریزولیوشن‘‘ پر چل رہا ہے‘ لہٰذا اس پر باقاعدہ قانون سازی کے لیے وفاقی حکومت کا سرگرم عمل ہونا، ایک فطری سی بات ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس معاملہ پر قانون بنانے کے لیے آئین پاکستان کے آرٹیکل 144 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے وفاقی پارلیمنٹ کو یہ مینڈیٹ تفویض کیا جانا چونکہ ایک قانونی ضرورت اور دستوری تقاضا ہے۔ بنابریں وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف تمام صوبوں سے بذریعہ مراسلہ اس اہتمام کا تقاضا کئی سال پہلے سے کیا جارہا ہے۔ اس قانون سازی کے حق میں سب سے پہلے خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی کی طرف سے قرارداد کی منظوری عمل میں آئی ہے۔ جس کے نتیجے میں رویت ہلال ایکٹ کی منظوری کے بعد کسی بھی پرائیویٹ رویت ہلال کمیٹی کے وجود کی قانون میں کوئی گنجائش نہ ہوگی‘ اور نہ ہی چیئرمین یا مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے علاوہ کسی اور پرائیویٹ باڈی یا تنظیم کو چاند کی رویت یا عدم رویت کے اعلان کا اختیار ہوگا‘ ایسی صورت میں قید اور جرمانے کی سزا کی تصریح مجوزہ قانون میں موجود ہے‘ اسی طرح نشریاتی اداروں‘ میڈیا ہائوسز اور ٹی وی چینلز کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں قبل از وقت کوئی اعلان نہ کریں ۔بصورت دیگر "PEMRA" ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے، لائسنس کی معطلی اور مالی جرمانے جیسی سزائوں کو زیر کارروائی لائے گا۔ رویت ہلال کے اس سارے معاملے میں چونکہ سب سے اہم بات ’’شہادت‘‘ یعنی گواہی کی ہے جس پر اس ساری کارروائی کا دارومدار ہے‘ لہٰذا عامۃ المسلمین میں ذمہ داری کے اس شعور کو بھی اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے‘ اس کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ بیان‘ غیر ثقہ اور جھوٹی شہادت کی صورت میں چھ ماہ تک قید اور بھاری جرمانے کی سزا اس قانون میں رکھی گئی ہے۔