چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کسی کو غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ برباد نہیں کرنے دیں گے‘ کیا یہ عیاشی کے لیے مفتے کا ملک ہے۔ سرکاری عہدوں پر تعینات افسران‘ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور وزراء سیرو تفریح کے لیے جب کسی جگہ جاتے ہیں تو سرکاری خرچے پر رہائش‘ سفر اور طعام کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ بعض ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی حاصل کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ کسی سرکاری کام کاج کے لیے نہیں بلکہ ذاتی خوشی کے لیے سیرو سیاحت کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ غریب عوام انہیں کوستے ہیں جو محنت و مشقت کر کے گھر کا چولہا جلاتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے 42افسران نانگا پربت سیر کے لیے گئے۔ اس دورے پر 23لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات ہوئے جو قومی خزانے سے ادا کیے گئے۔ پی آئی اے پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ رہی سہی کسر افسران نکال رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ قائم مقام ڈی جی سول ایوی ایشن نے بھی مفتے میں مزے کئے۔ پی آئی اے اتنا بڑا ادارہ ہے لیکن انتظامیہ آج تک کوئی اصول ہی وضع نہیں کر سکی۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے ذریعے یہ خبر مل گئی اور چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا ورنہ تو لوٹ مار کا یہ معاملہ سامنے ہی نہ آتا۔ چیف جسٹس پی آئی اے افسران سے اخراجات کی رقم حاصل کر کے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیں تو آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اداروں کا بھی جائزہ لیں تو صورت حال اس سے ملتی جلتی ہی نظر آئے گی۔ افسران اور وزراء ذاتی کاموں کے لیے بھی دوسرے شہر جائیں تو سرکاری وزٹ کے کھاتے میں ڈال کر محکمے سے پیسے بٹورتے ہیں۔ اس طرز فکر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے تاکہ لوٹ مار کا سلسلہ رک سکے۔