گزشتہ روز ڈیرہ غازیخان جانے کا اتفاق ہوا۔ کوٹلہ دیوان میں اپنے بزرگ دوست پروفیسر عبدالغفور غوثوی کی وفات پر پہنچنا تھا مزید یہ کہ ڈی جی خان میں قرنطینہ کیمپ جانا مقصود تھا کہ بحیثیت صحافی وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اس کے علاوہ یہ کہ بزرگ سرائیکی رہنما اکبر خان ملکانی نے دعوت بھی دی تھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کرونا مہم کے بارے میں ہم وسیب میں آگاہی مہم شروع کریں کہ وسیب کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے ٹرانسپورٹ کی صورتحال کا جائزہ لیا اور وہ نوٹیفکیشن حاصل کیا جس میں صوبائی حکومت کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ فوتگی پر جانے کی اجازت ہے اور صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کیلئے استثناء حاصل ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی ہے البتہ کار میں دو آدمی جا سکتے ہیں۔ اپنے دوست شریف خان لاشاری کی گاڑی میں ہم صبح ملتان سے روانہ ہوئے جونہی شیر شاہ کراس کیا تو ملتان مظفرگڑھ روڈ پر پیدل چلنے والوں کا بہت بڑا قافلہ نظر آیا اور تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آئے کسی کے ہاتھ میں بیگ تھا تو کسی کے سر پر سامان کی بوری، ہم نے پاس سے گزرتے ہوئے چند نوجوانوں سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟ تو اکثریت نے بتایا کہ کراچی مزدوری کرتے تھے ، لاک ڈائون کی وجہ سے بڑی مشکل سے ملتان پہنچے ہیں اور اب اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ پیدل چلنے والوں پر سات فٹ فاصلے کا قانون لاگو ہوتا ہے کہ نہیں مگر مجبور و لاچار لوگ ایک دوسرے کے ہم قدم چلے جا رہے تھے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ اکثریت نے کراچی کا نام لیا جبکہ کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو کہ اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد سے آرہے تھے ۔ آنیو الے مسافروں کے چہروں پر تھکن اور مایوسی کے آثار نمایاں تھے، ان کی بے کسی اور بے چارگی کو دیکھ کر مجھے 1947ء میں ہونیوالی ہجرت کے قافلے یاد آئے جو بڑی مشکلوں سے انڈیا سے پاکستان پہنچے۔ دوران سفر ہمیں جگہ جگہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مختلف جگہوں پر چیک پوسٹیں موجود تھیں جبکہ بڑی چیک پوسٹیں دریائے چناب کے شیر شاہ پل اور دریائے سندھ کے غازی گھاٹ پل پر موجود تھیں جہاں پولیس کے علاوہ رینجرز کے لوگ بھی موجود تھے۔ ڈی جی خان اور جام پور کے درمیان بہت بڑی چیک پوسٹ بنائی گئی تھی جہاں ہر آدمی کا کرونا ٹیسٹ بھی ساتھ ساتھ ہو رہا تھا۔ ہمارا اڑھائی گھنٹے کا سفر 5 گھنٹوں پر محیط ہو گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہماری فوج کے جوان، پولیس اور طبعی عملہ فرنٹ لائن کے طور پر کام کر رہا ہے اور ہم میڈیا کے ذریعے ان کی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کرتے آرہے ہیں مگر دریائے چناب اور دریائے سندھ پر پولیس نے نا صرف ہمارا بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی وقت ضائع کیا اور فوتگی پر بھی ہم بروقت نہ پہنچ سکے۔ میں نے دریائے سندھ پر پولیس اہلکار سے کہا کہ ہم نے جنازے پر پہنچنا ہے اور میرا تعلق صحافت سے ہے اور صحافیوں کو استثناء حاصل ہے تو پولیس اہلکار نے بات سمجھنے کی بجائے زور زور سے بولنا شروع کر دیا کہ تم لوگ صحافی ہو، تمہیں تو سمجھ ہونی چاہئے کہ اتنا حساس معاملہ ہے کہ میّت کے قریب تک جانا نہیں چاہئے۔ میں نے اُسے کہا کہ صاحب بہادر ! یہ بات سمجھو کہ فوت ہونیوالے پروفیسر صاحب کرونا وائرس سے نہیں بلکہ ہارٹ اٹیک سے فوت ہوئے ہیں ، یہ سن کر وہ لاجواب ہو گئے۔ جیسا کہ میں نے کہا ،ایک تو لوگ وبائی آفت کی وجہ سے پریشان ہیں دوسرے نا سمجھ حکومتی عمائدین بھی لوگوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ ڈیوٹیاں دینے والے حکومتی اہلکاروں کی آگاہی کیلئے نوٹیفکیشن پیش کر رہا ہوں جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلائو کے پیش نظر نقل و حمل پر دفعہ 144کے تحت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ تاہم یہ پابندیاں درج ذیل سرگرمیوں پر عائد نہ ہیں ، جیسا کہ اہم کیسز میں جانے والے محترم ججز، وکلاء اور اُن کا سٹاف، صحت کی خدمات، اس سے منسلک افراد، ادویات اور پی پی ای ایس بنانے والے اور اُن کی ترسیل و فراہمی سے منسلک ادارے، گاڑی پر مریض اور اس کے علاج کے لیے دو افراد کی نقل و حمل، کھانے پینے اور ادویات خریدنے والے افراد، تدفین اور نماز جنازہ میں شریک ہونے والے افراد، اہم مفاد عامہ کے ادارے مثلا واپڈا، ایس این جی پی ایل وغیرہ، 50 فیصد سٹاف کے ساتھ کال سنٹرز بغیر پبلک ڈیلنگ، مالیاتی ادارے، دفاع سے متعلق پیداواری ادارے ضروری سٹاف کے ساتھ، کھانے پینے کی اشیاء کے پیداواری ادارے اور اُن کی ترسیل و فراہمی، کریانہ سٹورز، بیکری، آٹا چکی، دودھ کی دکان، گوشت کی دکان، پھل اور سبزی کی دکان، تندور۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ مویشی منڈی، غلہ منڈی اور سبزی منڈی، آٹو ورکشاپ، پٹرول پمپ، آئل ڈپو، ہوم ڈلیوری، ریسٹورنٹ، ڈرائی پورٹ اور اس سے منسلک کسٹمز سروسز، پولٹری اور فیڈ ملز، بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات کی دکانیں، فلاح و بہبود کی تنظیمیں جو فری دسترخوان اور ضروری خدمات فراہم کرتی ہیں، میڈیا کے افراد جن کو انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے نامزد کیا ہو اور اخبار فروش، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، پاک اسٹاک ایکسچینج ، سنٹرل ڈیپوز ٹری کمپنی اور منسلک ادارے، باردانہ کی پیداواری ادارے اور اس کی ترسیل و فراہمی سے متعلق ادارے، ایل پی جی پمپس اور اُن کی ترسیل و فراہمی، پوسٹل اور کوریئر سروسز پک اینڈ ڈراپ، عینک سازوں کی دکانیں، کھانے پینے کی پیکنگ کی صنعت، کارخانے، حفظان صحت کی اشیاء کی پیداواری اور اس سے منسلک فراہمی اور ترسیل کے ادارے، تیل اور گیس کی پیداوار کے ادارے اور ان کے ٹھیکیداران وغیرہ، پاکستان ریفائنری اور اس سے منسلک صنعت، احساس کفالت پروگرام اور بی آئی ایس پی کے دفاتر و مراکز، سیلولر کمپنیز اور اُن کے فرنچائزرز، ٹیٹرا پیک اور اس طرح کے دوسرے پیکیجنگ ادارے، مقامی سطح پر کمشنر صاحبان کے دیئے ہوئے استثنیٰ۔ ہماری ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں سے اپیل ہے کہ وہ ناجائز سختی نہ کریںاور مندرجہ بالا نوٹیفکیشن میں جو استثناء حاصل ہے اُس حق سے لوگوں کو محروم نہ کریں۔ہماری یہ بھی درخواست ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی کرکے ٹرانسپورٹ بحال کی جائے۔