دونوں کا ہے درد پرانا لیکن نئی کہانی بجلی آنکھ مچولی کھیلے آنکھ سے برسے پانی ہر تصویر ہے آنکھ کا دھوکہ اور دھوکہ بھی ایسا جو صورت بھی جان سکے ہم وہی لگی پرانی اور پھر اس میں ایک رومانس بھی تو ہے ہم نے اس کو ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہہ دیں۔اپنے پیارے کے جذبے میں تھی چھپی ہوئی نادانی۔ یہاں تک تو بات سیاست کی نہیں تھی۔یہاں تو بجلی آنکھ مچولی نہیں کھیلتی بلکہ کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔ایک پیاری سی پوسٹ نظرنواز ہوئی کہ شہباز شریف کے آنے پر پتہ چلا کہ پچھلی حکومت کی نااہلی کے باعث 15پلانٹ بند پڑے تھے اور اب حکومت نے انہیں بحال کرنے کے ساتھ کئی نئے پلانٹ بھی چلا دیے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ کہ تب تو بجلی باقاعدگی سے آتی تھی مگر اب لوڈشیڈنگ کی حد ہی ہو گئی۔ کہنے والے کا مطلب کہ چوہا لنڈورا ہی بھلا تھا۔شکر ہے کہ قدرت مہربان ہو گئی کہ بارش اتر آئی مگر حبس میں بھی تو پنکھے چلانا پڑتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک اور دلچسپ خبر کا بھی تذکرہ کرتا چلوں کہ اخبار میں یہ دیکھ کر ہنسی آئی کہ آج کورونا سے کوئی فوت نہیں ہوا میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر ہمارے رویے اس طرح کے کیوں ہو گئے ہیں۔یہ بھی تو لکھا جا سکتا ہے کہ الحمد للہ بہتری آ چکی ہے۔یہ ’’فوت‘‘ کا لفظ استعمال کیوں ضروری ہے بلکہ ایک مرتبہ تو میں نے خود ٹی وی پر سنا کہ کورونا سے لاہور کے چار چراغ بجھ گئے۔میرا مطلب ہے یہاں ایسی زبان کی کیا ضرورت تھی۔یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کے فوت نہ ہونے کا کریڈٹ بھی حکومت لے لے۔حکومت کوئی بات بنا ہی لیتی ہے اب بختاور بھٹو نے بھی تو کہا ہے کہ نکاسی کے لئے بارش کا رکنا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ دنیا بھر میں شہروں کو اربن فلڈنگ کا سامنا ہے یہ بات غلط نہیں مگر اس چیلنج کے لئے آپ نے تیاری کیوں نہیں کر رکھی تھی بہرحال کراچی میں بارشوں نے قیامت ڈھا رکھی ہے شہزاد احمد نے کہا تھا: میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر بات تو مجھے ضمنی الیکشن کی کرنا ہے مگر کچھ اور ہونے لگی شاید اس لئے کہ اس وقت بھی باہر چھما چھم موسلا دھار بارش اتری ہوئی ہے یہ بڑا موقع تھا اگر شہباز شریف ادھر ہوتے تو لانگ بوٹ پہنے بارش کے پانیوں میں کھڑے ہوتے اور سر پر ہیٹ۔اس وقت تو وہ دوسرے بکھیڑوں میں ہیں بلکہ ساری قیادت ہی ضمنی الیکشن میں پھنسی ہوئی ہے۔اہم وزراء استعفے دے کر اس دنگل میں اپنے پہلوانوں کو ہلہ شیری کے لئے آئے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی کا مورال زیادہ بلند ہے وجہ یہ ایک تو ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں دوسرا یہ کہ ان کا بیانیہ کلک کر گیا ہے۔ن لیگ حکومت میں ہے اور ان کے پاس وسائل بھی ہیں مگر ان کے سامنے مسائل بھی ہیں۔ایک تو انہیں ان لوگوں کو سپورٹ کرنا پڑ رہا ہے جو عام حالات میں ان کے خلاف تھے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے جیتے تھے ن لیگ والے اپنے ووٹرز کے پاس جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ انہوں نے تو ان پر مقدمے تک کروائے تھے وغیرہ وغیرہ۔پی ٹی آئی کے نزدیک تو لوٹے ہیں اور وہ اس بات کو اسٹیبلش بھی کر چکے ہیں۔ ایک اور مسئلہ مہنگائی کا ہے اور یہ مسئلہ وعدوں سے حل نہیں ہو سکتا۔ ایک پٹرول میں کمی کا ریلیف اور آئندہ کے سہانے وعدے۔ پی ٹی آئی میں ایک ہی خامی ہے کہ وہ ردعمل میں شدید ہیں جو ان کا خلوص بھی ظاہر کرتا ہے مگر وہ لاعلمی میں سنجیدہ اور خاموش طبقے کو متنفر بھی کر رہے ہیں۔ایک مثبت تبدیلی جو میں نے دیکھی ہے کہ پی ٹی آئی بہرطور ایک زندہ حقیقت بن چکی ہے یہ تاثر میرے حساب میں غلط ہوتا جا رہا ہے کہ اس میں صرف عمران خاں ہی ہے۔نہیں ایسا نہیں ہے رفتہ رفتہ ایک طبقہ پوری طرح شعوری سطح پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے کہ انہوں نے ملک کو لوٹا ہے اور انہوں نے برسوں سے ملک کو یرغمال بنا رکھا ۔ یہ سوچ کر وہ خان صاحب کی غلطیوں اور گڑ بڑ سے چشم پوشی کرتے ہیں مثلاً یہ بات وہ سوچتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے لئے کر رہے ہیں مگر کیا کریں ان کی بقا بھی اسی میں ہے۔یہ حقیقت کہ اپنے چوروں سے اغماض کیا۔اگر ایک دو کو سزا دلوا دیتے تو پوزیشن اور ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ فواد چودھری کو کہنا پڑا کہ ہم نے احتساب کے بیانیے کو دفن کر دیا: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے اب ایک خاص بات کہ جس کا تذکرہ ہر قابل ذکر تبصرہ نگار اور کالم نگار نے کیا کہ خان صاحب نے زیادہ وقت پکڑ دھکڑ یعنی انتقامی سیاست میں گزار دیا۔اس چیز نے ان کی توانائیاں کھا لیں۔وہ جانے والوں پہ الزامات ہی لگاتے رہ گئے۔پھر بات وہی آتی ہے کہ پاکستانیوں اور بالخصوص پنجاب کے لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکا کہ وہ عثمان بزدار سے کیا نکالنا چاہتے ہیں۔پنجاب کو نظرانداز کیا گیا۔آخر کیوں؟ایک مثال ترکی کمپنی کی جو کہ صفائی ستھرائی کر رہی تھی‘اس کو ہٹایا گیا اس کے بعد لاہور گندا ہو گیا۔آج جب حمزہ شریف نے آ کر صفائی کروائی ہے تو ہماری عائشہ مسعود طنزیہ پوسٹ لگا رہی ہیں کہ حمزہ نے صفائی کروا کے کون سا لاہوریوں پر احسان کیا ہے میں نے پوچھا کہ کیا احسان گند ڈال کر ہوتا ہے۔ عوام کسی کی نہیں وہ تو کام دیکھتے ہیں۔یہ بھی افسوس ناک ہے کہ صوبائیت کو ہوا مل رہی ہے۔ایک تقریر کے آخر میں مریم نواز نے بہت سخت لہجے میں عمران خاں کو پنجاب کا دشمن کہا۔ میرے ذہن میں وہ دور آ گیا جب وزارت اعلیٰ پر نواز شریف تھے ایک حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے کہ لوگوں کو میٹرو اور اورنج روز نظر آتی ہے پھر خان صاحب شہباز شریف پر یہ طنز کرتے ہیں کہ وہ صبح چار بجے اٹھ جاتا ہے اور کام پر لگ جاتا ہے۔یہ کہنا کہ میرا مالی بھی چار بجے اٹھ کر کام پر لگ جاتا ہے۔لوگوں سے جڑنا پڑے گا۔صرف کھاتے پیتے اور چمچماتے لوگ ہی یہاں نہیں بستے۔یہ تلخ نوائی ضرور ہے مگر آپ اس سے خلوص بھی اخذ کر سکتے ہیں۔آپ محسوس کریں کہ اب آپ زندہ حقیقت ہیں: سعد لہجے میں جو تلخی ہے کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا