’’ہڑپے کا ایک کتبہ‘‘

بہتی راوی ترے تٹ پر‘ کھیت اور پھول اور پھل 

تین ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کے چھل بل

دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی‘ اک ہالی‘ اک ہل!

سینہ سنگ میں بسنے والے خدائوں کا فرمان

مٹی کاٹے ‘ مٹی چاٹے‘ ہل کی اَنی کا مان

آگ میں جلتا پنجر ہالی‘ کاہے کو انسان

کون مٹائے اس کے ماتھے سے دکھوں کی ریکھ

ہل کو کھینچنے والے جنوروں ایسے اس کے لیکھ

تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں تین بیل ہیں‘ دیکھ!

(مجید امجد)

موت اس کے چہرے پر اتر رہی ہے۔ ایک بے آب مچھلی کی مانند کروٹیں بدل رہی ہے ‘درد کی شدت سے اس کا چہرہ کھنچائو اور تنائو سے بے مہرہ ہو رہاہے۔ رگیں ابھر کر یوں پھڑکتی ہیں جیسے ہر رگ ایک ایسی مچھلی ہے جس کے حلق میں موت کے شکاری کا کانٹا پھنس چکا ہے اور کسی بھی لمحے وہ پھڑک پھڑک کر چہرے سے جدا ہو جائیں گی ‘وہ بے شکل ہو جائے گا اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہڑپے سے واپسی پر فنا کی تاریکی ایسی ایک سیاہ شب ہے جس میں ہماری کوچ‘ کاروں‘ ٹریلروں ‘ بسوں‘ ویگنوں ‘ ٹرکوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے درمیان ساکت کھڑی ہے۔ وہ ٹریفک کی مکڑی کے بنے ہوئے جالے میں ایک مکھی کی مانند پھنس چکی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ تار عنکبوت اس کے بدن کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے ٹریفک یوں ٹھنسی پڑی ہے کہ ہم اپنی کوچ کا دروازہ بھی نہیں کھول سکتے۔ دروازے کے ساتھ تو ایک بس کی دیوار جڑی ہوئی ہے اور باہر ان ہزاروں مکڑیوں کے جالوں میں سے بدبودار دھواں خارج ہو رہا ہے اور انجنوں کی گڑگڑاہٹ کی گونج اور بھانت بھانت کے ہارنوں کا شور ہے اور میں جب کبھی پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اس کا چہرہ درد کی اذیت سے بگڑتا دکھائی دیتا ہے اور اس کے پہلو میں بیٹھے ڈاکٹر انیس احمد مجھے دیکھتے ہیں اور میری آنکھوں میں درج سوال کا جواب اپنے سر کی خفیف جنبش میں دیتے ہیں کہ امکان کم کم ہے۔ اگرچہ وہ بھی ایک ڈاکٹر ہے۔ دانتوں کا ڈاکٹر ہے جس کا نام نسیم ہے۔ اسے ہڑپے سے واپسی پر ایک ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم ٹریفک کی مکڑی کے جالے میں پھنس چکے ہیں بس دیکھ رہے ہیں کہ اسے دل کا دورہ پڑ رہا ہے۔ وہ مشکل میں ہے‘ بمشکل اذیت برداشت کرتا ہے اور ہم مجبور ہیں اس لیے بھی کہ ہم پاکستان میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہیں یہاں اگر دُھائی دی جائے کہ لوگو! ہماری کوچ میں ایک ایسا شخص ہے جو روزانہ سیرکا عادی ہے نہ فربہ ہے اور نہ ہی زیادہ خوراک کا متوالا ہے تو اسے بھی ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے تو ہم اسے نزدیک کے ہسپتال میں لے جانا چاہتے ہیں تو ذرا راستہ دے دو تو کیا کوئی دھیان کرے گا ‘راستہ دے گا۔؟ یہ کفار کی سلطنت تو نہیں کہ میرا دوست اور میرا محسن ایروفلوٹ کی پرواز میں پاکستان واپس آ رہا ہے اور اسے پرواز کے دوران ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے تو روسی پائلٹ اپنی پرواز کا راستہ بدل کر الاسکا کے صدر مقام اینکر ایج کے ایئر پورٹ پر اتر جاتا ہے جہاں ایک ایمبولینس اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم منتظر ہے اور تلمیذ کو فوری طور پر بحال کر کے اینکر ایج کے مرکزی ہسپتال میں لے جاتی ہے اور وہاں اس کی اتنی دیکھ بھال کی جاتی ہے کہ جب وہ پاکستان لوٹا اور وہ موت کے قریب تھا‘ میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگا‘ مستنصر صاحب ‘اینکر ایج ہسپتال کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے جس طور دن رات میری خدمت کی۔ میری بیوی اور بیٹے کو اپنی رہائش گاہ دے دی اور مجھ سے کچھ رقم وصول نہ کی تو کیا یہ لوگ ‘بھی جہنم میں ہی جائیں گے ‘صرف اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ نسیم کو ہارٹ اٹیک ہو رہا تھا اور وہ جانے کیسے اس جان لیوا اذیت کو برداشت کر رہا تھا جب مجھے ایک واہمے نے پریشان کیا کہ اگر نسیم مر جاتا ہے تو ہم کیا کریں گے۔ اپنی نشست پر لڑھک جاتا ہے تو ہم کیا کریں گے۔

جب کبھی یہ تھمی ہوئی ٹریفک حرکت میں آئے گی تو ہم نسیم کو کہاں لے جائیں گے۔ ہماری کوچ میں سب لوگ زندہ ہوں گے اور یہ اپنی نشست سے لڑھک چکا ہو تو ہم کیا کریں گے ۔یہ آج ہی کی سویر کا قصہ ہے جب ہم ماڈل ٹائون پارک کے سیر کے ساتھی‘ بھانت بھانت کے جانور ‘ میرے اور عادل کے اکسانے پر ہڑپہ کے کھنڈروں میں ایک دوپہر بسر کرنے کے لیے لاہور سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اگرچہ ان کھنڈروں کے پہلو میں شہر ساہیوال بھی تھا جو مجھے محبوب بہت تھا کہ وہاں میرا محبوب شاعر مجید امجد رہتا تھا اور اس شہر میں کسی ایک گھر میں‘ جس کی قدیم دیواروں پر بیلیں چڑھی ہوتی تھیں اور جس کے صحن میں یکدم بارش اترتی تھی اور جس کے غسل خانہ کی ٹھنڈک میں بوسیدہ دروازے کی کھونٹی سے لٹکا ہوا ایک زرد پیراہن ہوا کرتا تھا۔ شہر ساہیوال کا خیال ایسا کہ میرے دل میں عجب عشق کی لذتوں اور بے خودی کی لطف انگیز رعنائیوں کے ہل چلاتا تھا۔ اس ہل کا پھل جوں جوں میرے بدن کی کھیتی میں اترتا تھا۔ مجھے عشق کے بے انت جہانوں میں اتارتا چلا جاتا تھا۔ اول اور آخر عشق۔

سو میرے لیے ساہیوال ایک قدیم دیوار پر رینگتی بیل تھی اور آثار قدیمہ کے ماہر رانا احمد نواز ٹیپو بھی چلے آئے۔ ویسے ایک ذات پات کا تکنیکی سا مسئلہ ہے کہ اگر وہ رانا راجپوت تھے تو پھر ایک ٹیپو کیسے ہو سکتے تھے وہ میرے ہمراہ ہے اور میوزیم میں نمائش شدہ قدیم اشیا کے حوالے سے 

گفتگو کرتے رہے۔

یہاں مجھے ایک تاریخی حقیقت بیان کرنی ہے اور بہت کم لوگوں نے اس حقیقت کے بارے میں سوچ بچار کیا ہو گا۔ جن دنوں میں اپنے ناول ’’بہائو‘‘کے حوالے سے ان خطوں کی قدیم تاریخ میں الجھا ہوا تھا سندھ کی وادی‘ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے بارے میں جتنے بھی تحقیق کے سمندر تھے ان میں کبھی غرق ہوتا اور کبھی ابھرتا تھا تو مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا انڈس ویلی یا سولائزیشن ’’وادی سندھ کی تہذیب‘‘ کا کہیں وجود نہ تھا صرف ہڑپہ کی تہذیب‘ کا تذکرہ تھا۔ موہنجو داڑو کو بھی ایک ہڑپہ کی تہذیب کا شہر قرار دیا گیا۔

تو پھر یہ آج کل بے دریغ استعمال کی جانے والی اصطلاح انڈس ویلی سولائزیشن کہاں سے آ گئی۔مجھے شک ہے کہ یہ ترکیب صرف اس لیے وجود میں لائی گئی تاکہ کہیں پنجاب نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر کی سب سے قدیم تہذیب کا منبع نہ ٹھہرے۔ لیکن آپ تاریخ کے دھارے کو موڑ نہیں سکتے وہ پنجاب کی جانب بہتا جاتا ہے۔ ہڑپہ کی تہذیب کی صورت میں موہنجو داڑو کی قدامت پر حاوی ہوتا جاتا ہے۔ ہڑپہ میوزیم کی سرگوشی کرتی گردشوں میں شیشے کے شوکیسوں میں نہ صرف اس اجڑ چکے شہر ہر یوپیہ کے زیورات‘ شراب کشید کرنے والے آلات‘ جام‘ مٹکے‘ بیل گاڑیاں اور شطرنج کے مہرے نمائش پر تھے بلکہ وہاں موہنجو داڑو کے کھنڈروں میں سے برآمد ہونے والی نشانیاں بھی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کھنڈروں میں دریافت ہونے والے ڈانسنگ گرل آف موہنجو داڑو کے علاوہ اس راہب کے مجسمے کی نقل بہ مطابق اصل بھی تھی جس نے اپنے کاندھوں پر ایک اجرک اوڑھ رکھی تھی۔ میرا کچھ گمان نہیں کہ دنیا بھر میں آج تک کوئی ایسا لباس ہو جس کے گل لوٹے جوں کے توں ہوں۔ موہنجو داڑو کے پروہت تو ساہیوال میرے لیے ایک قدیم دیوار سے لپٹی ایک بیل ہے ایک زرد پیراہن ہے اور مجید امجد ہے۔ میں نے بہت کھوج کی لیکن مقامی دوستوں طارق سلطان اور محمد علی نے خبر کی کہ ساہیوال میں مجید امجد کی کوئی نشانی باقی نہیں رہی۔ نہ وہ عسرت زدہ کوارٹر‘ نہ سٹیڈیم ہوٹل اور نہ ہی وہ سائیکل۔

تو ساہیوال میں اس کی موجودگی کی ایک تنہا اور اداس مہک تو ہو گی:

جو دن کبھی نہیں بیتا۔ وہ دن کب آئے گا

انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا‘کون دیکھے گا

ہم آج صبح ہی تو ہڑپے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

ڈاکٹر نسیم کے دل کا درد سواہوتا جاتا تھا۔ بڑھتا جاتا تھا اور ہم کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ اس کا چہرہ درد کی شدت سے مسخ ہوتا تھا۔

(جاری)