ہماری بس میں پچیس خواتین اور بیس مرد تھے، جو لبیک کی صدا اور البیک کی غذا کے ساتھ سفر جاری رکھے ہوئے تھے ۔ مدینہ سے مکہ کے راستے میں تپتا بلکہ دہکتا صحرا چاروں جانب پھیلا دکھائی دیتا تھا۔ کہیں کہیں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں متعارف کرائے گئے نیم یا نِم کے درخت بھی دکھا ئی دے جاتے، جن کے نیچے یقینا نمی نمی ہوا بھی چلتی ہوگی۔ وسیع اور ہموار سڑکوں پر ہر قبیل کی رنگا رنگ( بلکہ ان کی رفتار اور ہیئت کی وجہ سے انھیں دنگا دنگ بھی کہا جا سکتا ہے) گاڑیاں فراٹے بھرتی جا رہی تھیں۔ کبھی کبھی برابر سے نیلے انجن والی سفید ریل بھی مہیب اژدہے کی مانند گزرتی دکھائی دیتی۔ گاہے گاہے مسافروں اور مقامی آبادی کے لیے بنائی گئی چمک دار اور چُونے گزمساجد پہ بھی نظر ٹھہرتی۔ شدت کی اس گرمی میں کہیں اونٹنیوں کا کوئی گروہ اپنے نو زائیدہ بچوں سمیت مطمئن انداز میں جگالی کرتا بھی نظر آ جاتا تو فوراً دھیان میں آتا کہ قدرت والا اگر کسی کو جھلستے صحرا میں رکھتا ہے تو پتھر جیسا حوصلہ بھی عطا کر دیتا ہے۔ بابا جی دونوں طرف لق و دَق صحرا کا یہ منظر دیکھ کے کہنے لگے: سیانے صحیح آکھدے سن، مَکیوں اَگے اجاڑ… بابا وڑائچ کی ایک بیٹی امریکا، ایک انگلینڈ میں ہے۔ کہنے لگے مَیں بیٹی سے ملنے انگلستان گیا تو خصوصی طور پر آکسفورڈ اور کیمرج کا دورہ کیا کہ دیکھوں تو سہی کہ یہ کون سی جادو نگریاں ہیں، جو محمد علی کو قائدِ اعظم، اقبال سیالکوٹی کو دانائے راز، حکیم الامت اور عمران نیازی کو عمران خان بنا دیتی ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تو پکوڑے بیچ رہے ہیں۔ جذبات میں بابا جی کا والیم ذرا اونچا ہوا تو پیچھے سے بیوی نے سرگوشی کی کہ دنیاوی باتیں ذرا کم کریں، آپ حج پہ آئے ہوئے ہیں۔ میری طرف دیکھ کے مسکرائے کہ خود ماں بیٹا کب سے گِٹ مِٹ کر رہے ہیں، مَیں نے کچھ کہا؟ اَسی سالہ بابا جی کو میاں محمد بخش اور بلھے شاہ کا کلام ازبر تھا، ان کے اشعار کو وہ جا بجا استعمال بھی کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے دیکھنے کی بات ہے کہ سعودی عرب سے لوگ ہم سے چندہ مانگنے یا حج عمرے پہ قائل کرنے آیا کرتے تھے۔ سردیوں میںافغانی لوگ دیہاتوں میں گارے مٹی کے مکان بناتے، ہم خود اچھا کھاتے، ان کو بچی کھچی روٹیاں دیتے، وہ مسجدوں میں ٹوتی پھوٹی صفوں پہ سو رہتے لیکن صحت ان کی مثالی تھی۔ وہ دونوں قومیں اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہونے کی بنا پر ہم سے آگے نکل گئیں۔ ہمارے حکمران ٹھوٹھا اٹھائے در در پہ مدت سے ماتھا ٹیک رہے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی آپ نے دیکھا سوائے حبشیوں اور پاکستانیوں کے کوئی ہاتھ پھیلاتا نظر نہیں آتا۔ پٹھان بھیک کی بجائے محنت پہ یقین رکھتے ہیں۔ آج بھی آپ کے ملک میں دانے بھوننے، چھلیاں بیچنے، جوتے پالش کرنے سے کچرا اُٹھانے تک وہ ہر چھوٹے سے چھوٹا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ ہمارا ہر نوجوان ان حکمرانوں کے اللے تللوں اور تلپٹ نظام سے تنگ آ کے ملک سے باہر بھاگ جانے پہ کمر بستہ ہے۔ بابا جی عمران خان سے خاصے متاثر لگتے تھے، انھوں نے بتایا کہ بیرونِ ملک ہر پاکستان صرف اور صرف عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتا ہے،باقی تو سب نادہندہ ہیں، کرپشن، کمشن کے بغیر اُن کے دماغ کی بتی نہیں جلتی۔ تم پڑھے لکھے لگتے ہو، خود ہی سوچو کہ جس حاکم، منصف، صحافی، بیوروکریٹ یاکمانڈر کے مفادات اور اثاثے ملک سے باہر ہوں گے، عوام کے لیے سوچتی ہے ان کی جُتی… وہ صرف ملازمت کی مدت یا عدت پوری کرنے اور مزید سے مزید مفادات بٹورنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔تمھارے دیس کے کرتا دھرتاؤں کے علاوہ پوری دنیا سمجھتی ہے کہ اگر عمران کو فری ہینڈ دیا جاتاتو ملک کی قسمت بدل جاتی۔ ووٹنگ کا جدید نظام اور پڑھے لکھے نوجوان اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ ہم نے ان کی بزرگانہ دانش اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کی خاطر پوچھ لیا : کیا باقی سیاست دان کسی طرح عمران خان کو مات دے سکتے ہیں؟ فوراً بولے: ’’بالکل دے سکتے ہیں؟‘‘ ’’کیسے؟‘‘ بس اتنا کریں کہ اپنی جائیداد فی الفور پاکستان کے نام کر دیں… ساری دولت ملک میں لے آئیں… اس نے تین یا چار کینسر ہسپتال بنائے ہیں، یہ تیس چالیس بنا دیں… وہ دو یونیورسٹیوں پہ اکڑ رہا ہے، یہ بیس پچیس بنا دیں… قومی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھنا چھوڑ دیں… جن ملکوں سے مانگتے یا وہاں جا کے قیام کرتے ہیں، وہاں کی جمہوریت اور عوامی حقوق یہاں بھی نافذ کریں… سیاست کو ذاتی جائیداد سمجھ کے نالائق اور لالچی اولاد یا تلوے چاٹ قسم کے حواریوںکو منتقل کرنے کی بجائے قومی وقار کی علامت بننے والے لوگوں اور عوام کا درد سمجھنے والوں کے سپرد کریں… اپنی پارٹی سے بچوں اور رشتے داروں کو پکا پکا نکال دیں، لوگ عمران کا نام بھی نہیں لیں گے۔ فرمانے لگے: وطنِ عزیز میں جب بھی ملکی مشکلات یا تباہی کی بحث چھِڑتی ہے تو ہر نام نہاد دانشور کی تان اسی بات پہ ٹوٹتی ہے کہ ملک کو پانچ جیموں نے اس حال کو پہنچایا۔ اب کسی محفل میں اس طرح کی گفتگو ہورہی ہو تو میری طرف سے ان میں (جھوٹ، جہالت اور جعلی جمہوریت) کی چار جیمیںبھی شامل کروا دینا۔ انھیں یہ بھی بتا دینا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ تمھارے ہاں دہائیوں بعد کسی ایمان دار اور جری لیڈر کا ظہور ہوا تو انھی نو جیموں کے بغض، حسد، خوف نے اسے دسویں جیم (جیل) میں پہنچا دیا۔ بابا جی نے بتایا کہ ہم اپنے ملک کی اسی سیاست پر تھوکتے ہوئے بیرونِ ملک آتے ہیں تو غیر مسلموں کا عدل و انصاف، بندوبست، مساوات، اخلاص اور جمہوریت دیکھ کے ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ہم پنجابیوں کی زیادہ دوستی سکھوں کے ساتھ ہے، روز ان سے گپ شپ رہتی ہے، وہ بھی خوشحال ہیں، ہم بھی خوش ہیں۔ یہاں نہ شریکا برادری والے جائیداد کے پھڈے ہیں، نہ جگہ جگہ کرپشن اور منشیات کے اڈے ہیں۔ یہاں لوگ جھوٹ نہیں بولتے، لڑتے نہیں، چوری چکاری کا ڈر نہیں، نہ جہیز، نہ فضول خرچیاں، ہر چیز خالص، دوائیں مفت۔قانون کی بالادستی ہے۔ ہر بچہ پیدائش سے موت تک حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پریشانی صرف اسی وقت ہوتی ہے جب گھر آ کے کوئی پاکستانی چینل لگاتے ہیں۔ اس بات پہ کڑھتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو کون بتائے کہ چند کمی کمین قسم کے صحافی اور پھڈے باز بیان بردار خرید لینا،کسی کو چینلوں پہ بَین کرا دینا، محکموں میں مرضی کے افسر بھرتی کرا کے مرضی کے فیصلے کرانا ملکی مسائل کا حل نہیں ہے۔ہم نے بابا جی کے گھر والوں کو متفکر دیکھ کر سیاست کا باب بند کرنے کی غرض سے کہا:بابا جی آپ نہایت گیانی لگتے ہیں،اس وقت حج پہ بھی ہیں، وطنِ عزیز کے لیے کوئی خاص دعا؟ کہنے لگے: ’بیٹا! ہم سب مقدس مقامات پہ آئے ہوئے ہیں،یہ سر زمین قبولیت سے لبالب ہے۔آپ بھی میری طرح ہر نماز کے بعد بس ایک ہی دعا کیا کریں۔‘ کون سی دعا بابا جی؟ ’’یہی کہ یا اللہ! فرعون زیادہ ہو گئے ہیں کوئی موسیٰ بھیج دے!‘‘