سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر)عبدالقیوم نے آئین کے آرٹیکلز 213 اور 215 میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا ہے جس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرری پر ڈیڈ لاک کی صورت میں معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد ہونا چاہئے۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جہاں صوبوں کو خودمختاری اور 1973ء کے آئین کو کافی حد تک اصلی حالت میں بحال کیا گیا وہاں وزیراعظم کے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرری کے اختیار کو بھی اپوزیشن لیڈر سے مشاورت اور اتفاق رائے سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم اور اپوزیشن یلڈر کا ان اہم عہدوں پر تقرری پر اتفاق نہیں ہوتا تو اس کے بعد کی صورتحال پر آئین پاکستان خاموش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے اس معاملے میں عدم اتفاق سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ الیکشن کمشن کے دو ارکان فروری 2019 ء سے نئے اور چیف الیکشن کمشن کے دسمبر 2019 ء سے ریٹائر ہونے کے بعد عدم اتفاق کے الیکشن کمشن میں تاحال ان عہدوں پر تقرریاں نہیں ہو سکیں۔ اپوزیشن معاملہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ لے کر گئی تو معزز عدالت نے بھی دس روز میں معاملہ اتفاق رائے سے حل کرنے کی ہدایت کی۔ اب اپوزیشن سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے مگربدقسمتی سے اپوزیشن اور حکومت کی باہمی مخاصمت کے باعث اس قومی ایشوپر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ بہتر ہو گا سیاستدان قومی مفاد میں فیصلے کریں تاکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سر تھوپنے کے رجحان کا خاتمہ ہو سکے۔