کہانی ہے انیس سال پہلے کی، جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر کو نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور انہیں ان کے درجنوں سیاسی اور غیر سیاسی ساتھیوں سمیت ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا، پرویز مشرف کو ایک سال پانچ دن پہلے نواز شریف نے ہی آرمی چیف مقرر کیا تھا، جنرل جہانگیر کرامت نواز شریف سے نالاں تھے اور نواز شریف ان سے نا خوش، جہانگیر کرامت نے جرنیلوں والی کوئی واردات ڈالنے کی بجائے از خود استعفیٰ دیدیا جو از خود بڑا واقعہ تھا، یہ اس ملک میں ہوا جہاں ایک جرنیل نے بے بنیاد مقدمے میں منتخب اور مقبول وزیر اعظم کو پھانسی گھاٹ تک بھی پہنچایا، آئین کو معطل کرکے ملک کے چیف ایگزیکٹو بن جانے والے پرویز مشرف نے اس مملکت اسلامیہ پر نو برس تک حکومت کی اور ان نو برس میں کیا کیا کھیل کھیلے گئے یہ بہت طویل داستانیں ہیں، میں آج کے کالم میں صرف انیس سال پہلے کے بارہ اکتوبر سے چوبیس گھنٹے قبل یعنی گیارہ اکتوبر کی شام کے ایک قصے کو آپ کے سامنے لا رہا ہوں، جسے پڑھنے کے بعد یہ بحث ختم ہو سکتی ہے کہ بارہ اکتوبر کی بغاوت کے قصوروار خود نواز شریف تھے؟ یا وہ جنرل مشرف کا ایڈونچر تھا؟ یا یہ انقلاب کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا اور کیا کچھڑی بہت پہلے پک چکی تھی۔ گیارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کی شام چار اور پانچ بجے کے درمیان میں اخبار کے آفس کے اپنے روم میں موجود تھا، فون کی گھنٹی بجتی ہے، رسیور اٹھایا تو دوسری جانب ایک معروف صحافی خاتون تھیں، وہ مجھے بتا رہی تھیں کہ کل بارہ اکتوبر کو ایک انقلاب برپا ہونے والا ہے، میں نے سوال کیا، آرمی چیف تو غیر ملکی دورے پر سری لنکا گئے ہوئے ہیں؟ معتبر صحافی خاتون نے میرا سوال سننے کے بعد پھر بولنا شروع کیا اور میں ان کی باتیں تجسس سے سنتا رہا وہ کہہ رہی تھیں۔ کل بارہ اکتوبر کو آرمی چیف کی سری لنکا سے وطن واپسی ہے، جب ان کا طیارہ پاکستانی حدود میں داخل ہو رہا ہوگا، اس سے پہلے انہیں برطرف کرکے نیا آرمی چیف بھی مقررکیا جا چکا ہوگا۔ جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور اسی دوران کچھ بھی ہو جائے گا، اس سے پہلے کہ وہ فون بند کرتیں میں نے پوچھا،، نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ جواب ملا،، جتنی خبر آپ کو بتانا تھی، بتا دی۔ میں نے صرف ایک لمحہ کیلئے ہی سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ اپنے روم سے باہر نیوز روم اور فیکس روم کے درمیان کھڑے ہوئے نیوز ایڈیٹر اکبر عالم صاحب کو دیکھ کر آواز دی تو وہ کمرے میں آ گئے، اکبر عالم صاحب چیف سیکرٹری پنجاب جاوید قریشی کے برادر نسبتی تھے اورانکی جنرل راشد قریشی سے علیک سلیک بھی میرے علم میں تھی ،جنرل راشد قریشی جنرل پرویز مشرف کے قریب ترین تصور کئے جاتے تھے،، میں نے اکبر عالم صاحب سے پوچھا، کیا جنرل راشد قریشی آرمی چیف کے ساتھ سری لنکا گئے ہوئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا۔ نہیں۔ میں نے سورس کا نام لئے بغیر انہیں بتایا کہ میرے پاس ایک بڑی اطلاع ہے اگر آپ اس پر جنرل صاحب سے کسی طور بات کر سکیں انہوں نے میری ساری بات توجہ سے سنی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکلے کہ ابھی بات کرتا ہوں، وہ اس قسم کے فون نیوز روم کی بجائے فیکس روم میں جا کر کیا کرتے تھے، شاید وہاں وہ اپنی دوسروں سے گفتگو کو محفوظ تصور کرتے تھے، ان کے نکلتے ہی میں نے کسی دوسرے راستے کا سوچنا شروع کیا، لاہور میں میرے پاس کون کون سنجیدہ اور پہنچ والا رپورٹر ہے؟ اسلام آباد میں کس رپورٹر کو فون کروں؟ اسی سوچ کے دوران فون کی گھنٹی دوبارہ بجی ، دوسری جانب وہی با وثوق صحافی خاتون تھیں۔۔۔۔ آپ نے ابھی میری معلومات کسی سے شیئر تو نہیں کیں؟ میں نے۔۔ نہیں۔۔ میں جواب دیا تو کہنے لگیں، آپ سے جتنی بھی بات ہوئی وہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھی، جو کچھ بھی میں نے کہا تھا ویسا نہیں ہونے والا ،آپ کوئی غلطی نہ کر جانا۔۔ انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کیا تو اکبر عالم صاحب واپس آگئے،،، کہنے لگے جنرل راشد قریشی صاحب گھر پر ہی ہیں ، فون ان کے ملازم نے رسیو کیا، وہ بتا رہا ہے کہ جنرل صاحب گھر کے باغیچے میں چہل قدمی کر رہے ہیں، ملازم انہیں میرا نام بتانے گیا ہے، میں پانچ منٹ بعد انہیں پھر کال کرتا ہوں۔۔۔ میں نے انہیں خاتون صحافی کی دوسری کال کی روشنی میں کہا،، اکبر عالم صاحب! میری اطلاع غلط تھی، براہ کرم انہیں دوبارہ کال مت کیجئے گا اور یہ بھی کہ میری اور آپ کی گفتگو بھی کسی کے علم میں نہ آئے۔ اگلے دن شام چار اور پانچ بجے کے درمیان کیا ہوا؟ میں نے آفس کی دوسری یا تیسری سیڑھی پر ہی قدم رکھا تھا کہ اوپر سے ایک شخص کو بہت تیزی سے نیچے اترتے ہوئے پایا، اس شخص کے ہاتھ میں اخبار کی تیار شدہ کاپی تھی، یہ روزانہ کا معمول تھا لیکن اس دن غیر معمولی اس لئے کہ شام چھ بجے تیار ہونے والی پہلی ڈاک کی کاپی شام چار بجے ہی نیچے جا رہی تھی، اس وقت کاپی ہاتھ میں تھامے سیڑھیاں اترنے والے مشتاق صاحب تھے،کتابت سیکشن کے ہیڈ، میں نے انہیں پکارا ، مشتاق صاحب!کیا یہ ضمیمہ ہے ؟ جواب ملا۔۔جی، مارشل لآ لگ گیا ہے۔چوبیس گھنٹے پہلے خاتون صحافی نے جو اسکرپٹ سنایا تھا اس پر فلم بن کر ریلیز ہونے جا رہی تھی۔ یہ واقعہ آج اس لئے سامنے لا رہا ہوں کہ میرے خیال میں بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے،، انقلاب،، کی تیاری دونوں جانب سے مکمل تھی، جنرل ضیاء الدین بٹ کو لنڈے بازار سے لائے گئے فوجی میڈلز اور وردی پہنا کر نیا آرمی چیف مقرر کرنے والا وزیر اعظم اس بات کے باوجود مات کھا گیا کہ اسکی سیاسی پرورش جنرل ضیاء الحق نے کی تھی۔ ٭٭٭٭٭ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے ان واضح احکامات کے باوجود کہ کسی الزام شدہ شخص کو الزام ثابت ہونے سے پہلے رسوا نہ کیا جائے،پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب مجاہد کامران کو گرفتار کرنے کے اقدام کو بہت زیادہ مشتہر کیا گیا‘ اگلے دن انہیں ہتھکڑی لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، اس اقدام کی تشہیر کیلئے پورے پاکستان کے میڈیا کو بلوایا گیا، اس گھناؤنے اقدام نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو بے توقیر کردیا ہے، عزت ایک محترم استاد کی نہیں اچھلی، بے عزت حکومت ہوئی ہے اور حکومت میں بیٹھے ہوئے وہ چھچھورے جو اقتدار کو دائمی اقتدار سمجھ بیٹھے ہیں، سابق وائس چانسلر کو بے عزت کرنے کی چالیں اور سازشیں کئی سال سے چل رہی تھیں، ن لیگ کی حکومت نے اس قسم کا کوئی دھبہ خود پر نہ لگوایا لیکن جن لوگوں سے قوم ایسے اقدام کی توقع بھی نہیں کر سکتی تھی وہ ہوگیا، جو ہوا وہ واپس نہیں ہو سکتا،جنہیں اپنی عزت کا پاس نہیں ہوتا وہ دوسروں کا احترام کیسے کر سکتے ہیں، آج نیب وہ سارے مناظر دوبارہ دکھا رہا ہے جو کبھی بہت پہلے نواز شریف کے دورحکومت میں نیب سیف الرحمان کی سرپرستی میں کیا جاتا تھا، اس دور میں بینظیر بھٹو شہید کی کردار کشی سیف الرحمان جیسے لوگوں سے ہی کرائی جاتی تھی، موجودہ حکومت میں لگتا ہے کہ سیف الرحمان جیسے کئی چہرے ہیں، یوز چینلز اور دوسرے میڈیا سورسز کے ذریعے بہت سارے قابل احترام لوگوں کو جرم ثابت کئے بغیر جس بے دردی سے رسوا کیا جا رہا ہے اس کے ذمے دار صحافی بھی ہیں اوراینکرز بھی۔ آخری بات… کیا ہم جیسے بے حس لوگ پاکستان کو کبھی مہذب اور کامران ملک بنا سکتے ہیں؟