دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ‘ نئے صبح وشام پیدا کر وزیراعظم ہاؤس‘ وفاقی وزارتوں اوراہم ترین اداروں میں اجلاسوں کی بھرمار ہے۔ ہر ایک فکرمند ہے کہ وطن عزیز کو قدرت نے قدرتی وسائل اورافرادی قوت سے نوازرکھا ہے۔ ایسا قیمتی انسانی سرمایہ جس نے دنیا کے ہرکونے اور شعبے میں لوہا منواتے ہوئے دھاک بٹھائی۔ ایسی باہمت قوم جس نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے عفریت پر ڈیڑھ عشرے میں قابو پاکردنیا کو دنگ کردیا۔ مگرتمام تر صلاحیتوںاور وسائل کے باوجود کشکول سے چھٹکارا حاصل ہورہا ہے اور نہ ہی پائیدار معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر؟ وجہ صاف ظاہر ہے فیصلہ ساز زمانے کی بدلتی روش‘ جدت اور تقاضوں کے برعکس فرسودہ نظام سے نکلنے کو تیار نہیں۔ یہ فرسودہ نظام ہی ہے جو پالیسی سازی کی راہ میں رکاوٹ‘ اقرباپروری کے فروغ ‘میرٹ کے قتل اور ایڈہاک ازم کا موجب بنتا ہے۔3مارچ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کروناوائرس سے زیادہ معاشی صورتحال‘ مہنگائی اور مہنگی توانائی پر بحث ہوئی۔ ارکان وفاقی وزیر اورمعاون خصوصی برائے توانائی پربرس پڑے۔ کیونکہ وزرا ء عوام اوراپوزیشن کا سامنا کرنے کے قابل نہیںاور19ماہ گزرنے کے بعدمحض ’بیان بازی‘سے مطمئن نہیں ہونے لگے۔ بالآخر مسائل کا انبار کم ہونے کے بجائے بڑھتاکیوں جارہا ہے؟ دنیا سپیشلائزیشن کی جانب گامزن جبکہ ہمارے پالیسی سازالٹی سمت رواں دواں۔ وفاقی وزارتوں اور سرکاری کمپنیوں میں ایڈہاک ازم عروج پرپہنچ چکا‘ہرگزرتے دن کیساتھ ایک سے ایک ہوشربا مثال قائم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اک مثال یہ کہ پٹرولیم ڈویژن کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آئل 15ارب ڈالرکی مالیت کی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ‘معیار‘طلب اور سپلائی سمیت تمام امور کا ذمہ دار ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئل کے عہدے پر پہلے غیرمتعلقہ تجربے کے حامل ریٹائرڈ افسر کو ایک سال تک تعینات رکھا گیا ۔پٹرولیم ڈویژن کے ایک بااثر بابوکا دل نہ بھرا تو انہوں نے2015سے وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی میں جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ڈاکٹر شفیع الرحمن آفریدی کو ڈائریکٹرجنرل سپیشل پراجیکٹ تعینات کرکے ڈائریکٹرجنرل آئل کی اضافی ذمہ داری سونپ دی ۔ یوںتمام امور سے نابلد آفریدی صاحب 15ارب ڈالر مالیت کے شعبے کے امورچلانے کی بے سود کوشش کررہے ہیں۔وزارت تجارت کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق ہدیٰ کوچند ماہ قبل 10ارب روپے سالانہ ریونیو کمانے والی کمپنی این آئی سی ایل کا قائمقام چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات کیاگیا۔تشفی نہ ہوئی تو106ارب روپے سالانہ ریونیو کمانے والی والی سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کاقائمقام چیئر مین بھی تعینات کرکے رہی سہی کسرپوری کردی گئی۔سوئی نادرن‘سوئی سدرن اوربجلی کی 16کمپنیاں جوسالانہ 2ہزار ارب روپے کا کاروبار کرتی ہیں‘ مستقل سربراہان سے محروم ہیں۔60سے زائد دیگر سرکاری کمپنیوں او راداروں کا نوحہ بھی یہی ہے جو ایڈہاک ازم کے چنگل سے نہیں نکل پارہے۔پالیسی او رفیصلہ ساز اپنے دل پر ہاتھ رکھ کربتاسکتے ہیں کہ وہ ایک دو ارب روپے ریونیو کمانے والی کمپنی کی باگ ڈور‘کسی قائمقام چیف ایگزیکٹو آفیسر یا قائمقام ڈی جی کے سپرد کرسکتے ہیں؟ قطعاً نہیں‘یہ اپنی کسی کمپنی پر ایسا خودکش حملہ کبھی نہیں کریں گے جس کا نتیجہ خوفناک تباہی ہو۔ یہ ایڈہاک ازم او ر فرسودہ نظام کا شاخسانہ ہی مطلوبہ پالیسی سازی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حکومت معاشی ترقی اورملکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے دن رات تگ ودو کررہی ہے مگر ساری توجہ اور توانائی صر ف ٹیکسٹائل کے شعبے پر ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو قومی خزانے سے سالانہ 40ارب روپے سبسڈی بھی دی جاری ہے تاکہ 14 ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ ملک میں لایا جاسکے مگر پالیسوں کے فرق کی وجہ سے بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پاکستان سے دوگنا ہیں۔پاکستان کو ایکسپورٹ میں اضافے اور امپورٹ میں کمی کیلئے قدرت نے سنہری موقع عطاکیا ہے جو ناقص پالیسی کے باعث ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 100ارب روپے سے زائد مالیت کے موبائل فون درآمدجن کی مجموعی تعداد3کروڑ60لاکھ سے زائد ہے۔تاہم مقامی سطح پر موبائل فون کی تیاری پر توجہ نہیں دی گئی۔ بنگلہ دیش اور بھارت نے زمانے کے رحجان کو مدنظر رکھتے ہوئے موبائل فون مینوفیکچرنگ پرتوجہ مرکوز کرلی۔موبائل فون درآمد پر ٹیکس شرح بڑھا کر مقامی پیداوار کو فروغ دیا گیا۔بھارت میں تین سال کے انتہائی قلیل عرصے میں آئی فون‘ سام سنگ سمیت غیرملکی اور ملکی کمپنیوںکے 268کارخانے لگ چکے ہیںجوسالانہ61برانڈ کے 22کروڑ 50لاکھ موبائل فون تیار اور6لاکھ 70ہزار مقامی افراد کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔بھارت چین کے بعد دوسرا بڑا موبائل فون پروڈیوسر بن چکا ہے۔2025میں موبائل فون کی ایکسپورٹ سے بھارت 110ارب ڈالر کمائے گا۔2017کے بعد بنگلہ دیش میں بھی سام سنگ سمیت عالمی کمپنیوں کے پلانٹ لگ چکے ہیں۔بنگلہ دیش نے موبائل فون کا مدر بورڈ تیار کرکے دنیاکو پیغام دیدیا ہے کہ وہ ٹیکسٹایل ایکسپورٹ سے نکل کرالیکٹرانکس کی دنیا میں ہلچل پیداکرنے آرہا ہے۔دونوں ملکوںکے پالیسی سازوں نے درآمدی فون پر پاکستانی روپوں میں 4ہزار روپے کا اضافی ٹیکس رکھ کر مقامی طورپرتیار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے ویژن’ میک ان پاکستان‘ سے متاثر کچھ پاکستانیوں نے موبائل فون کا پلانٹ لگادیا مگر وہ موبائل فون مینوفیکچرنگ پالیسی کی منظوی کے منتظر ہیں؟ ادھروزارت صنعت وپیداوار نے پہلی مرتبہ موبائل فون مینوفیکچرنگ پالیسی تیارکرلی جس کی ای سی سی سے حتمی منظوری باقی ہے۔ ای سی سی نے ٹیکس تناسب کی اہم خامی دور نہ کی تو یہ پالیسی نئے پلانٹس کے بجائے پہلے سے نصب پلانٹ کی بندش کا مؤجب بنے گی۔کاش پالیسی اور فیصلہ ساز نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایڈہاک ازم کے خاتمے اور میرٹ کی بالادستی کے آگے سر تسلیم کرلیں تو عوام اورمعیشت کو نئے صبح وشام میسرآسکتے ہیں۔