امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے مشترکہ مفادات کے لئے باہمی تعاون کے فروغ کی بات کی ہے۔امریکی رپورٹس کے مطابق لائیڈ جے آسٹن نے پاک امریکہ باہمی تعلقات اور خطے میں استحکام کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ملکوں کے اشتراک عمل کی تاریخ پرانی ہے ،پاکستان اور امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کا کارنامہ مل کر انجام دے رکھا ہے ۔خطے کی سکیورٹی کے معاملات میں دونوں کے درمیان تعاون کئی بار نمایاں حیثیت سے سامنے آیا۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات طویل مدت کے بعد کسی مشترکہ فوجی آپریشن کے بنا بحالی کے مرحلے میں ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور عوامی رابطوں کی نوعیت مضبوط نہیں اس لئے تعلقات کو پہلے جیسی گرمجوشی کی شکل میں برقرار رکھنا ایک چیلنج دکھائی دے رہا ہے۔یہ چیلنج اس لحاظ سے مزید دشوار ہو رہا ہے کہ اکثر و بیشتر امریکہ رابطہ کاری کے لئے نچلی سطح کے سفارتی عملے کو ذمہ داری تفویض کرتا ہے جو بدلے ہوئے حالات میںبرابری کی سطح کے خواہشمند پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں۔دونوں جانب بداعتمادی پائی جاتی ہے۔امریکہ کی بداعتمادی اس بنیاد پر ہے کہ پاکستان نے اسے بتائے بنا افغان طالبان سے روابط رکھے اور اب جب امریکہ نے انخلا کے بعد ضروری آپریشنوں کے لئے پاکستان کی سرزمین پر اڈوں کا عندیہ دیا تو پاکستان نے یکسر انکار کر دیا۔امریکی پالیسی ساز فیصلوں کے لئے درکار اخلاقی اور قانونی جواز کی وہ شکل قبول نہیں کرتے جو پاکستان اور اس جیسے معاشروں میں رائج ہے۔امریکہ ہمیشہ فیصلے کرتے وقت مالی و تجارتی مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے۔امریکیوں کا سیدھا سا اصول ہے کہ جب انہیں کسی ریاست سے کوئی کام لینا ہو تو وہ طاقت سے اس سے حسب مرضی فیصلہ کروا لیتے ہیں یا پھر اپنی مرضی کے فیصلے کی خاطر مالی فوائد کی پیشکش کرتے ہیں۔امریکی سمجھتے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون تک پاکستان نے امریکہ کی جو مدد کی اس کی قیمت پاکستانی ریاست نے وصول کی لہٰذا اب پاکستان ان خدمات کا ذکر دوطرفہ تعلقات میں قربانی کے طور پر نہیں کر سکتا۔رواں برس جولائی میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے نئے مشترکہ مفادات کی وضاحت کی تھی۔نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان کے معاملات کے حوالے سے اپنا مددگار اور شراکت دار سمجھتا ہے۔افغانستان میں امن و استحکام امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ مفاد میں ہے، مزید براں یہ کہ انسداد دہشت گردی کے بڑے پیمانے پر اقدامات اور عوامی سطح پر روابط مضبوط کرنا بھی مشترکہ مفادات میں شامل ہیں۔ جہاں تک افغانستان میں قیام امن و استحکام کے مشترکہ مفاد کی بات ہے تو پاکستان نے امریکہ کو برسوں تک باور کرانے کی کوشش کی کہ افغان تنازع کا حل جنگ کی بجائے مذاکرات سے تلاش کیا جانا چاہیے۔پاکستان نے صرف ایسا کہا ہی نہیں بلکہ امریکہ کی خواہش پر طالبان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کیا۔پاکستان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے کہ افغان طالبان حکومت اور دوسرے جنگجو سیاسی دھڑوںسے مذاکرات پر تیار ہو گئے۔پاکستان کے ان اقدامات اور کوششوں کو امریکہ کی خاموش تائید حاصل رہی لیکن امریکہ کو جس عظیم الشان ذلت سے محفوظ رکھنے کے لئے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اس سطح کا اعتراف امریکی انتظامیہ کی جانب سے نہیں دیکھا گیا۔صدر بائیڈن کے وزیر اعظم عمران خان کو فون کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ معمول کے لحاظ سے کوئی بہت اہم نہیں لیکن امریکہ کو محفوظ راستہ دینے کے بدلے میں صدر بائیڈن بین الاقوامی روایات کے تحت شکریہ ادا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ایسا مبہم طرز عمل اختیار کر رکھا ہے جس سے سیاسی سطح پر ایک سرد مہری محسوس کی جا رہی ہے۔یقینا افغانستان سے امریکی انخلا کا منصوبہ ایک بہت بڑی سرگرمی ہے۔اس انخلا کے بعد افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑنے کا مطلب خانہ جنگی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے‘اسی طرح انتخابی عمل کی عدم موجودگی کے باعث افغانستان میں انتخابی ادارہ قائم کرنا امریکہ کی ذمہ داری تھی۔امریکہ یہ ذمہ داری پوری کئے بنا افغانستان سے نکلا ہے۔افغان عوام کا مینڈیٹ عموماً جنگجو لشکروں کی قوت سے سامنے آتا رہا ہے۔گزشتہ دو ماہ کے دوران افغان طالبان نے ملک کا 80فیصد سے زاید علاقہ قبضے لے لیا ہے۔طالبان نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں حالات پرامن اور طالبان کے متعارف کرائے گئے قوانین کے تحت ہیں۔اس وقت بدامنی اور خونریزی کی واحد وجہ اشرف غنی حکومت ہے جس کے پاس نہ عوامی مینڈیٹ رہا ہے نہ اس کی انتظامی گرفت اتنی مضبوط رہی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرا سکے۔ان حالات میں اشرف غنی حکومت نہیں چھوڑتے تو افغانستان میں بدامنی بڑھنے کا خدشہ رہے گا۔ایسے تشویشناک مرحلے پر امریکہ کا بین الاقوامی سپر پاور کے طور پر کردار بھارت کے مفادات کا تحفظ کرنا نہیں بنتا نہ اسے یہ کہنا چاہیے کہ طالبان نے طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا تو اسے تسلیم نہیں کریں گے۔امریکہ کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ جمہوری عمل کی عدم موجودگی میں وہ کس بنیاد پر اشرف غنی حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کے رابطہ سے پاک امریکہ تعلقات میں در آئی سردمہری تو کم نہ ہو سکے گی بس ورکنگ ریلیشن شپ میں قدرے بہتری ہو سکتی ہے۔