ستمبر 1972ء کے پاکستان کے اخبارات گواہ ہیں کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے سرکردہ سیاسی رہنما جن میں خان عبدالولی خان‘ سردار عطاء اللہ مینگل‘ محمود ہارون‘ نواز بگٹی‘ نبی بخش زہری اور ملک غلام جیلانی علالت کے بہانے لندن گئے اور پھر وہاں ملاقاتیں کیں‘ ان ملاقاتوں کے نتیجے اپنے اپنے صوبوں میں آزادی کی تحریکیں چلانے کے لیے بھرپور منصوبہ بندی کی گئی۔ ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن قائم کرنے کا روڈ میپ دیا گیا جس میں بنگلہ دیش اور افغانستان کو بھی شامل کرنے کا پلان تیار کیا گیا۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو کم از کم دس سال تک پاکستان کا نام برقرار رکھا جانا تھا اور پھربنگلہ دیش کی شمولیت کی صورت میں شیخ مجیب الرحن کو اپنا لیڈر تسلیم کیا جانا تھا، لیکن یہ لندن پلان ابتدا ہی میں اپنی موت آپ مر گیا۔پاکستان کا یہ الیمہ رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے لندن ہی کو اپنا گھر بنایا جب حکمران اقتدار سے الگ ہوئے لندن ہی میں آ کر سیاسی ملاقاتوں کا نہ صرف سلسلہ شروع کیا بلکہ اپنے ادوار میں لوٹی گئی قومی دولت کو بھی برطانیہ کے بینکوں میں محفوظ کرلیا۔اس وقت ریکارڈ سطح پر پاکستان کے حکمرانوں کی جائیدادیں اور اثاثے لندن کے ان علاقوں میں ہیں کہ جن میں عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کے علاوہ برونائی دارالسلام کے شاہی خاندان کی جائیدادیں بھی ہیں۔ وسطی لندن کا انتہائی مہنگا علاقہ پارک لین اور ایجویر روڈ وہ علاقہ ہے کہ جس جگہ جنرل پرویز مشرف سے لے کر رحمان ملک اور سیاسی اشرافیہ سمت اعلیٰ بیوروکریسی نے جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہائوس آف شریف کے علاوہ ہائوس آف زرداری کی بے شمار بے نامی جائیدادیں لندن کے ان ہی علاقوں میں موجود ہیں۔ لندن ہی میں میاں نوازشریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان پاور شیئرنگ کا منصوبہ تیار ہوا جس کو چارٹر آف ڈیموکریسی کا نام دیا گیا۔ اس معاہد ے پر دونوں جانب سے باضابطہ طور پر دستخط ہوئے۔ گو بظاہریہ معاہدہ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور آئین پاکستان کو تحفظ دینے کی خاطر تھا۔ لیکن حقیقت اس معاہدے کی یہ تھی کہ مل کر پاکستان میں اقتدارکی باریاں لی جائیں۔ لندن میں ان تمام سیاسی سرگرمیوں کے دوران امریکی‘ برطانوی اور دیگر عرب ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اس پورے عمل میںجنرل پرویز مشرف اور یو اے ای کا شاہی خاندان برابر دلچسپی لیتا رہا حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو نے لندن ہی میں رحمان ملک کے فلیٹ پر پیپلزپارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے پارٹی امیدواروں کو بلوا کر پارٹی ٹکٹ دیئے اور پھر امریکی اور برطانوی حکومتی نمائندوں کی مشاورت سے دبئی کے شاہی محل میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقاتیں کیں۔ دوسری جانب سعودی عرب کے شاہی خاندان نے میاں نوازشریف کو اقتدار کا حصہ بنانے کی غرض سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ دوسرے لفظوں میں جنرل پرویز مشرف سے دونوں پارٹی کے رہنمائوں کے علاوہ دیگر سیاسی رہنمائوں کو بھی این آر او دلوانے میں سرگرم کردار ادا کیا گیا۔ اس پورے کھیل میں کراچی کو تباہ و برباد کرنے والے الطاف حسین کے ساتھیوں کو بھی این آر او دے کر اقتدار کا حصہ دار بنادیا گیا۔ اس کھیل کی تصدیق سابق امریکی سیکرٹری خارجہ کونڈو لیزا رائس کی کتاب سے ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ماضی میں لندن پلان بنتے رہے ہیں اور اب بھی لندن میں یہ پلان بن رہا ہے ذرا تصور کریں کہ تین مرتبہ پاکستان میں وزیراعظم کے عہدے پر رہنے والا شخص اپنے سینے میں نجانے کتنے قومی راز رکھتا ہو گا اور وہ آج لندن میں بیٹھ کر اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر غیر ملکی قوتوں کے ساتھ کیا ساز باز کر رہا ہے اور پاکستان کے عسکری اداروں کے بارے میں کیا زہر اگل رہا ہے۔ سزا یافتہ یہ مجرم لندن سے اپنے مسلم لیگی رہنمائوں کو جو پیغامات دے رہا ہے اس کی تازہ مثال اسی پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی کا وہ بیان ہے جس نے خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا ہے جو غیر ملکی طاقتیں پاکستان اور خود افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو کمزور کر کے خطے میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی منظم سازش کر رہی ہیں۔ جس کا مقصد خطے میں بھارت کی اجارہ داری قائم کرنا اور پاکستان میں افراتفری پھیلانا ہے یہ ایجنڈا پاکستان دشمن قوتوں کا ہے۔ ماضی میں لندن ہی میں الطاف حسین کو استعمال کیا گیا اور اب میاں نوازشریف اسی ایجنڈے کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ بھارت‘ امریکہ‘ برطانیہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اس وقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور معاشی طور پر پاکستان کو تباہ کرنے کی غرض سے اپنے مہرے تیار کر رہی ہیں‘ اس سلسلے میں لندن پاکستان دشمن سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے پاکستان کے خلاف منظم سازش کو کیوں بے نقاب نہیں کرتے اور پاکستان کے اندر ان خفیہ ہاتھوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ آخر ان کی مجبوریاں کیا ہیں؟ ایک سزا یافتہ مجرم لندن میں اور دوسری سزا یافتہ مجرمہ پاکستان میں ضمانت پر رہا ہو کر عسکری اداروں اور حکومت کے خلاف جو زبان استعمال کر رہی ہیں انہیں روکنے کے لیے قانون کیوں حرکت میں نہیں آ تا؟۔ Horse Trading & Political Stock Exchanges. ہماری سیاست کا حصہ بن چکی ہے عام آدمی جمہوریت کی فلسفیانہ قدروقیمت یا نظریاتی حسن سے زیادہ جمہوریت کی عملی افادیت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ پاکستان گزری نسلوں کی قربانیوں کا ثمر‘ موجودہ نسل کی امیدوں کا محور اور آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ لندن میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کی جائے اور غیر ملکی ہاتھوں کی مدد سے پاکستان میں اقتدار حاصل کیا جائے اور پھر اسے جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کا نام دے کر سرزمین پاکستان پر غیر ملکی ایجنڈا پروان چڑھایا جائے۔ بیرون ملک بیٹھے ان سابق حکمرانوں کے پاس بے پناہ دولت ہے۔ برطانوی حکام کسی قیمت پر بھی نہ تو ان کو حکومت پاکستان کے حوالے کریں گے اور نہ ہی پاکستان کی لوٹی گئی دولت ۔ اب وقت آ چکا ہے کہ قومی ادارے اپنا کردار ادا کریں اور نئے لندن پلان کو ہر سطح پر ناکام بنائیں۔ میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار کی لندن میں سرگرمیاں کسی صورت میں بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ کون بیوروکریٹ لندن آ کر ان سے رابطہ کرتا ہے؟ وہ کون سے سیاسی رہنما ہیں جوکہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان میں بدامنی اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان تمام عناصر کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی عوام کو بھی پاکستان مخالف ہاتھوں کے آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے۔