بھارت اور امریکہ نے حال ہی میں بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈکے بلند ترین پہاڑوں پر 10,000 فٹ کی بلندی پر ’’یدھ ابھیاس‘‘کے نام سے چین کی سرحد سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر فوجی مشقیں کیں ۔بھارت اور امریکہ نے جس علاقے میں مشترکہ مشقیں کیںیہ وہ علاقہ ہے جہاں 2020ء سے دونوں ممالک کے مابین نہایت کشیدگی پائی جاتی ہے ۔ چین نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میںوادی گلوان پر قبضے کے بعداس پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ چین نے بنکرز بنائے ہیں اور کئی مستقل تعمیرات کی ہیں۔ اب وہ اسے چھوڑ کر جانے والا نہیں۔چین کی اس بالادستی کے بعد بھارت نے اپنے عسکری اثاثوں میں زبردست اضافے کے ساتھ ہی فوجیوں کی تعیناتی میں بھی زبردست اضافہ کیا ہے۔واضح رہے کہ جب کوئی دو ممالک کی فوجیں مشترکہ مشقیں کرتی ہیں تو ان کے حریف کو یہ پیغام جاتا ہے کہ مشترکہ فوجی مشقیں کرنے والے ممالک کے درمیان باہمی ہم آہنگی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو یہ فوجیں مل کر لڑ سکتی ہیں۔ اگرچہ بھارت کاکہنا ہے کہ لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پاس بلند ترین پہاڑیوں پر بھارت اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں کا ہدف چین نہیں ہے اور ایل سی کی صورت حال سے بالکل مختلف معاملہ ہے لیکن چین نے کھلے لفظوں میں کہاکہ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے میں یہ تیسرے فریق کی مداخلت ہے۔ چین نے اپنے سرحدی علاقے کے قریب بھارت اور امریکہ کی فوجوں کی مجوزہ مشترکہ فوجی مشقوں پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو طرفہ سرحدی تنازعے میں کسی بھی تیسرے فریق کی جانب سے کسی بھی نوعیت کی مداخلت کا سخت مخالف ہے۔ا س سے قبل اگست 2022ء کے اوائل میںبھی بھارت اور امریکہ کی افواج نے انڈیا کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کے علاقے بکلوہ میں’’ تھنڈر اٹیک‘‘ کے نام سے مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ چینی وزارت دفاع کیترجمان کرنل ٹین کیفی کاکہنا ہے کہ ہم چین بھارت سرحدی معاملے میں کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کے سخت مخالف ہیں۔کرنل ٹینم کیفی کا کہنا تھا کہ چین بھارت سرحدی تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان کا مسئلہ ہے اور جہاں فریقین نے ہر سطح پر موثر رابطے برقرار رکھے ہیں، وہیں دو طرفہ بات چیت کے ذریعے صورتحال کو مناسب طریقے سے سنبھالنے پر بھی اتفاق کر رکھا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ سرحدی تنازعے سے متعلق سال 1993ء اور 1996ء میں چین اور بھارت کے درمیان جو معاہدہ طے پا یا تھا اس کی روشنی میں، لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریبی علاقوں میں کسی بھی فریق کو دوسرے کے خلاف فوجی مشق کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ترجمان نے بھارت سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا،کہ امید ہے کہ بھارت دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے سے طے پانے والے متعلقہ معاہدوں کی سختی سے پابندی کرے گا اور دو طرفہ چینلز کے ذریعے سرحدی مسائل کو حل کرنے کے اپنے عزم کو برقرار رکھے گا۔ وہ عملی طور پر سرحدی علاقے میں امن و سکون برقرار رکھنے کے اقدامات کرے گا۔ بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ 15جون2020ء کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں چین اوربھارت دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے درجنوں فوجی ہلاک اورزخمی ہو گئے تھے۔بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچویل کنٹرول پردو برسوں سے لگاتار جاری رسہ کشی کے دوران بھارت تقریباً تین ارب ڈالر سے امریکہ سے 30 ایم کیو نائن بی پریڈیٹر مسلح ڈرون خریدنے جا رہا ہے۔ایم کیو نائن بی ڈرون 35 گھنٹے سے زیادہ تک فضا میں رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ چار ہیل فائر میزائل اور تقریباً 450 کلوگرام گولہ بارود لے جا سکتے ہیں۔ایم کیو نائن بی اسی‘ایم کیو نائن ریپر‘ ڈرون کی ایک قسم ہے جسے 31 جولائی2022 ء کو کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو جان بحق کرنے والے میزائل داغنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔بھارت مشرقی لداخ کی سرحد پر چین کے ساتھ جاری کشیدگی پر توجہ مرکوز کر رہا ہے اور بحر ہند کے علاقے میں چینی جنگی جہازوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے مسلح ڈرون کی خریداری کر رہا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارت روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایس 400 میزائل سسٹم کی دوسری کھیپ خرید رہا ہے تاکہ وہ اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر تعینات کرسکے۔خیال رہے کہ انڈیا نے پہلے ہی مغربی بنگال کے ہاشیمارا ایئر بیس پر فرانس سے خریدے گئے رافیل جنگی طیاروں کا ایک سکواڈرن تعینات کیا ہے۔چونکہ ہاشیمارا ایئر بیس سکم، بھوٹان اور چین کے درمیان سہ رخی جنکشن پر واقع وادی چمبی کا قریب ترین ہوائی اڈہ ہے اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس ایئر بیس پر رافیل کی تعیناتی کا مقصد چین کی سرحد کے قریب ہونا اور اس پر قریب سے نظر رکھنا ہے۔ان تمام باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت چین کے خلاف اپنی عسکری تیاریوں کو بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ درایں اثناء بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کاکہناہے کہ بھارت اور چین کے تعلقات انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔یاد رہے کہ بھارت اور چین کی فوجوں نے مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تعطل کو حل کرنے کے لیے اب تک 16 بار کور کمانڈر کی سطح پر بات چیت کی ہے لیکن ان مذاکرات کے ذریعے بہت سے زیر التوا مسائل سے نمٹنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی اوردونوں کے مابین یہاں کشیدگی موجود ہے ۔