خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سر تسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے بات ہی کچھ ایسی ہے کہ آج کچھ درد مرے دل میں سا ا ٹھا ہے خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے۔ ہم بھلا رنج و الم یاس کہاں رکھیں گے موضوع پر آنے سے پہلے ایک شعر اور، پیلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے بات مجھے کرنا ہے بھارت سے آئے ہوئے لبرل نمائندہ جاوید اختر کی۔ میں ان کی قابلیت اور دانشوری کا قائل ہوں کہ وہ سچ مچ لکھے پڑھے آدمی ہیں۔ ہاں شاعر وہ کچھ عام سے ہی ہیں مگر ہمارا موضوع ان کی گفتگو ہے جو انہوں نے فیسٹول میں فرمائی‘کیا کہیں: یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو اچھا لگا کہ صرف ظفر ہلالی کا ردعمل آیا کہ اس بزدل اور منافق شخص کو فی الفور ڈی پورٹ کیا جائے اچھا لگا کہ ہمارے صحافی اداکار دانشوروں اور ادیبوں پر بازی لے گئے کہ انہوں نے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت فوراً دیا ۔شان شاہد اور فیصل قریشی نے کہا کہ یہ بزدل اپنے گریبان میں جھانکے کہ وہاں مودی کے خلاف گجرات کے قتل عام پر وہاں کچھ کہے۔ کیا کریں کہ ہمارے دانشور بھی اس کو دانشوری سمجھتے ہیں ہمارے ایک مقبول ترین طنز نگار جو ان دنوں بھی چھائے ہوئے ہیں اور اس خاندان کو نوازا جاتا ہے مگر جب کراچی 12مئی کو پچاس لوگ خون میں نہلا دیے گئے تو وہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑے خندہ زن زہر لگ رہے تھے۔ ظلم تو ہر جگہ ظالم ہی کہلائے گا۔ میرے پاکستانیو! سوچنے کی بات ہے کہ جاوید اختر کو بلایا کس نے ؟ یہ وہی لوگ ہیں۔جن کا ذھن و دل اسی رائے کا پاس رکھتا ہے یہ سانپ سنپولیے ہم نے پال رکھے ہیں سیفما کا حوالہ ذھن میں آ گیا اگر چھپ گیا تو ٹھیک وگرنہ یہ ادارہ تو ہے جہاں سے نواز شریف نے یادگار تقریر کی تھی کہ کیا فرق ہے ادھر میں اور ادھر میں۔وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ہم خدا کو مانتے ہیں وہ بھی بھگوان کو مانتے ہیں۔ میں نے ان کے اجلاس اٹینڈ کئے اور دیکھا کہ جیسے آپ بھارتی اذھان کے درمیان بیٹھے ہیں اللہ جانتا ہے کہ میں نے تو ان کا مشاعرہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ملالہ پر نظم کے لئے کہا گیا مگر انہیں مایوسی ہوئی۔یہ امن کی آشا کے نام پر اپنے نظریات پھیلانے والے، یہ ایک گروپ ہیں جس کی طرف میں نے پہلے بھی صرف اشارہ کیا تھا کہ تفصیل میں جانے کو دل نہیں چاہتا کہ شکایت اچھی نہیں لگتی: مت شکایت کرو زمانے کی یہ علامت ہے ہار جانے کی آپ ایک نظر اپنے ہاں ہونے والی کانفرنسز اور فیسٹیولز پر ڈال کر دیکھ لیں آپ کو ایک گروپ مرکز و محور نظر آئے گا من ترا حاجی بگو ئم تو مرا ملا بگو۔ سب پی آر ہے۔ سالہا سال سے حکومتوں کو بلیک میل کرنے والا ٹولہ جس میں اکثریت مذہب بے زار لوگوں کی ہے ایک آدھی اقلیتی اپنے مشن پر۔ بڑی سخت باتیں میں لکھوں گا تو چھپیں گی نہیں اب کے بھی مجبوری ہو گئی کہ جاوید اختر کی ہرزہ سرائی کے خلاف کچھ تو صحبت تمام کرنا تھی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا ہے وہ جاوید اختر کی سمجھ میں نہیں آتا۔اگرچہ وہ لبرل ہے مگر وہ اندر سے مجبور نظر آیا ۔دکھ تو یہ ہے کہ اسے اسی مقصد کے لئے بلایا گیا۔ٹھیک ہے آپ اداروں کے لئے طنز و مزاح کا سہارا لیتے ہیں درست ہے کہ یہ فن ہے ادب ہے یا شاعری۔ مگر اپنے ملک کے خلاف اگر فضا بنائیں گے تو ہم چپ تو نہیں بیٹھیں گے کئی این جی اوز بھی تو اسی کام پر ہیں۔ میں اپنی بات کی دلیل کے طور پر بتانا چاہوں گا کہ مجھے کراچی آرٹس کونسل کی کسی کانفرنس میں کبھی نہیں بلایا گیا کوئی شکوہ نہیں کہ یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہاں کے شاہ صاحب کو یہ شاہ پسند نہ ہو مجھے ڈاکٹر فوزیہ صدیق صاحبہ نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ایک جرگہ میں بلایا تھا میں ایک مقصد کا نمائندہ ہوں وہاں اس وقت بھی یہی فیسٹول ہو رہا تھا اور انور شعور صاحب محبت سے زبردستی اس میں لے گئے سمندر کے کنارے یہ خوبصورت تقریب تھی۔ مزے کی بات وہ تو یہ تھی اور وہ تھی ایک عجب سی بحث بتانا میں یہ چاہتا ہوں کہ کچھ اذھان کچھ اور طرح کے کام میں بلکہ کسی کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال ایک ٹرینڈ سیٹ ہو چکا ہے کہ سب کو رگید کر رکھ دیا جائے بات یہ ہے کہ جاوید اختر نے تو ہمیں بے دار کیا مگر انہوں نے اپنے اردگرد سے خوب داد پائی کہ بھارت میں بھی ان کی خوب پزیرائی ہوئی مگر اندر سے ہندو مسلمانوں جیسا نام تک برداشت نہیں کرتا ہر معاملے میں وہ ہم سے مختلف ہیں وہ گائے کو پوجتے ہیں ہم کھا جاتے ہیں ان کے لوگوں میں سانپ ہے ہمارے میں ماخور یعنی سانپ کھانے والا ان کے لئے تو گوبر بھی کسی سوغات سے کم نہیں جبکہ ہم تو اسے گندگی سمجھتے ہیں۔ذہنوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔