پاکستان کے زیر خارجہ شاہ محمود قر یشی نے بیان دیا ہے کہ ہمارا ملک امریکہ سے وسیع البنیاد اورتزویراتی (اسٹریٹجک) شراکت داری چاہتا ہے۔ پاکستان کئی بار امریکہ سے ڈسا گیا لیکن اسکی حکمران اشرافیہ کی امریکہ سے خوش اُمیدی اور خود فریبی ختم نہیں ہوتی۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ جب پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مفاد ہو تو دونوں ممالک وقتی طور پرکسی معاملہ پر ایک دوسرے سے تعاون کریں اور باہمی فائدہ اٹھائیں لیکن امریکہ سے تزویراتی تعلقات کا مطلب ہے کہ پاکستان خطہ میں امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہو جائے ۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟ دونوں ملکوں کے طویل مدتی مفادات ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم ہیں۔ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے تزویراتی اتحادی ہیں جبکہ امریکہ‘چین کو عالمی سیاست میں اپنا حریف سمجھتا ہے۔پاکستان کے دفاع اور معاشی ترقی میں چین کا اہم کلیدی کردار ہے۔ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے جس کے لیے عوام میں خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔اس کے برعکس عوام کی اکثریت امریکہ کوناپسند کرتی ہے۔وہ اسے مغربی سامراج کا سرغنہ سمجھتے ہیں جو اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ بھی ہے۔ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بھارت سے کشمیر پر تنازعہ ہے۔ پاکستان جب بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کا ذکر کرتا ہے تو اسکی اصل مراد امریکی مداخلت رہی ہے کیونکہ امریکہ اتنی بڑی سپر پاور ہے کہ صرف وہ ہی بھارت کواس تنازعہ کے منصفانہ حل پرمجبور کرسکتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔جب پاکستان کمیونسٹ سوویت یونین(روس) کے خلاف امریکہ کا قریب ترین اتحادی تھا،اس وقت بھی امریکہ نے کشمیر کے جھگڑے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کرنے میں ہماری مدد نہیں کی تو اب کیا کرے گا۔ ہمارے حکمران ہمیشہ خوش فہمیوں کا شکار ہوئے۔ کوئی امریکی صدر اپنا مطلب نکلوانے کی غرض سے صرف کشمیر کا ذکرسر عام کردے اور یہ کہہ دے کہ امریکہ اس مسئلہ کو حل کروانے کی کوشش کرے گا تو ہمارے حکمران اس سے لمبی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں اس قسم کا وعدہ کیا تھا جو صرف بیان کی حد تک رہا۔ حقیقت اسکے برعکس یہ ہے کہ بھارت سے کشمیر پر کسی جنگ میں امریکہ نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ستمبر 1965 کی جنگ ہوئی تو امریکہ نے اپنے قریبی اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کی فوجی امداد بند کردی۔ اس زمانے میں پاکستان میں امریکی سفیر والٹر پی میک کونوگی نے صدر ایوب خان سے طنزاً کہا کہ ’صدر صاحب ۔بھارتیوں نے آپکو گلے سے پکڑ لیا ہے۔‘اس مشکل وقت میں پاکستان کو چین اور ایران نے وافراسلحہ اور گولہ بارودفراہم کیا ‘ انڈونیشیا نے جنگی جہاز‘ میزائیل بوٹس اور آبدوز مستعار دیے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ کبھی ہمارا قابل اعتماد دوست ثابت نہیں ہوا۔1971 میں امریکہ مشرقی پاکستان میںبھارت کی فوجی جارحیت کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتا رہا اور پاکستان کی مدد نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں فرانس نے پاکستان سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا لیکن امریکی دباؤ پر اسے منسوخ کردیا ۔ انیس سونوّے کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ سے ساٹھ ایف سولہ جہاز نقد رقم دیکر خریدنے کا معاہدہ کیا ۔ امریکہ نے یہ معاہدہ منسوخ کردیا اور طویل عرصہ تک اس سودے کے لیے دی گئی پیشگی خطیر رقم بھی واپس نہیں کی۔انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے بعد سترہ سال تک امریکہ نے پاکستان کی ہر قسم کی امداد بند رکھی۔ جب افغانستان میں کمیونسٹ روس کی فوجیں داخل ہوئیں تو امریکہ نے پاکستان کو ایک بار پھر معاشی اور فوجی امدداد دینا شروع کی۔ افغانستان میں پاکستان کی بدولت سوویت یونین کوذلت آمیز شکست ہوئی جس نے اسے اتنا کمزور کردیا کہ مشرقی یورپ میں کمیونسٹ حکومتیں گرنے لگیں اور خود سوویت یونین کے بہت سے صوبے الگ ہو کر خود مختار ملک بن گئے۔ اسکے فوراً بعداحسان فراموشی کرتے ہوئے امریکہ نے پاکستان سے منہ موڑ لیا۔پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام بند کرے۔ جب پاکستان نہ مانا تو 1990میں امریکہ نے اسکی معاشی اور فوجی امداد ایک بار پھر بند کردی۔ امریکی کانگریس نے ایسے قوانین (جیسے پریسلر ترمیم) منظور کر لیے جن کے تحت کہا گیا کہ اسے کشمیر میں ’دہشت گردی‘ کو فروغ دینے پر سزا دی جائے۔ جسے ہم کشمیر کی آزادی کی تحریک کہتے تھے شروع سے ہی امریکی اسے پاکستانی حکام سے سفارتی ملاقاتوں میں دہشت گردی قرار دے رہے تھے۔ امریکہ نے پاکستان کی امداد اسوقت بحال کی جب ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اس نے افغانستان پر چڑھائی کی اور پاکستان نے اسکا ساتھ دیا‘ اسکو فوجی اڈے فراہم کیے۔چند برس پہلے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر اُلٹے سیدھے الزامات لگا کر تیسری بار پاکستان کی امداد بند کردی۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی ہمارے سروں پر امریکہ اور انڈیا کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے لٹکی ہوئی ہے۔اسکا مقصد یہ ہے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی ہر طرح کی مدد بند کردے۔ دوسری طرف‘ امریکہ پاکستان سے مطالبہ کررہا ہے کہ ستمبر میں افغانستان سے اسکی فوجوں کا انخلاکے بعد اسے افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی غرض سے پاکستان اپنا زمینی راستہ اور فضائی حدود استعمال کرتے رہنے کی اجازت دے۔اس مقصد کیلئے واشنگٹن سفارتی ملاقاتوں میں لالچ بھی دے رہا ہے اور دھمکیاں بھی ۔ اگر اسلام آبادنے یہ اجازت دی تو افغانستان میں ہمار جو بچے کچھے دوست رہ گئے ہیں وہ بھی ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ پاکستان کا دفاع ہو یا کشمیر کے تنازعہ کا حل یا افغانستان کی خانہ جنگی کسی معاملہ پر بھی امریکہ اور پاکستان کے مفادات مشترکہ نہیں۔ امریکہ سے شراکت کا مطلب ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے‘ افغانستان مین پشتون دوستوں کو چھوڑ کر امریکہ نواز اور بھارت نواز حکومت کی حمایت کرے‘ انڈیا کی خطہ میں بالا دستی قبول کرلے اور چین سے قربت کم کردے۔ پاکستان کے مفاد میں یہ ہے کہ وہ امریکہ کی بجائے اپنے ہمسایہ میں واقع چین اور روس سے تزویراتی تعلقات بنائے اور ایران سے اختلافات ختم کرکے معاشی تعاون بڑھانے کی کوشش کرے۔امریکہ سے وسیع البنیاد تعلقات پاکستان کی اشرافیہ کے ذاتی مفادات کیلئے تو فائدہ مند ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کو ان سے کوئی نفع نہیں ہوگا۔