آج کے کالم کا محرک دراصل سوشل میڈیا پر ’’قدسیہ ممتاز‘‘ کی پوسٹ اور دوسرا ان کی طرف سے براہ راست پوچھا گیا ایک سوال۔ وہ اپنی پوسٹ میں لکھتی ہیں ’’اب تو بس ایک ہی خواہش رہ گئی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی طرح وصیت کر جائوں کہ مجھے غلام زمین میں دفن مت کرنا‘‘ قدسیہ ممتاز پڑھی لکھی ‘ جواں ہمت صاحب الرائے خاتون ہیں‘ جو اظہار پر قدرت رکھتی اور لکھنے کے فن سے آگاہ بھی ہیں۔یہ پوسٹ مایوسی ہے ‘ غصہ یا بغاوت؟ کیونکہ ان کا عمومی رویہ مایوسی نہیں بلکہ بہادری کے ساتھ مقابلے میں ڈٹ جانے کا ہے ۔مثلاً ایک پوسٹ میں وہ انقلاب ایران کا حوالہ دیتی ہیں‘ ایران مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت جدید ترین اسلحہ سے لیس لاکھوں کی تعداد میں نہایت تربیت یافتہ افواج‘ خفیہ ایجنسی کی مہارت اور چابکدستی کا کوئی جواب ہی نہیں تھا‘ ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اس ایجنسی سے منسلک اہلکار ہوا کرتا تھا‘ کوئی فرد‘ بشر اور اس کی حرکت ان ایجنسیوں سے چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ایرانیوں نے جب بادشاہ کا ظلم مزید سہتے رہنے سے انکار کر دیا۔تو فوج کی سیسہ پلائی دیواریں‘ایجنسیوں کی مہارت طوفانوں میں ریت کے ذروں کی طرح بکھر گئیں۔تب ایران تیل پیدا اور برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ایک ایک بوند تیل کو ترس گیا تھا‘ ملک کی سب سے بڑی ابادان ریفائنری بند ہو چکی تھی‘ فیکٹریوں میں تالے پڑ گئے تھے‘ سکول اور سفارت خانے بند ہو گئے تھے‘ ملک میں تین طرح کی قطاریں ہر وقت لگی رہتی تھیں۔ایک ملک سے فرار ہونے والوں کی جنہیں منہ مانگے داموں بمشکل سیٹ ملتی تھی۔دوسری راشن لینے والوں کی جنہیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا تھا‘ تیل کی قلت عام لوگوں کو ہی نہیں تھی‘ سفراء اور وزراء بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔مختار مسعود لکھتے ہیں’’جب گھر کا چولہا اور ہیٹنگ سسٹم چلانے کے لئے گھروں میں ایک قطرہ تیل نہ بچا تو ایک روز دروازے پر دستک ہوئی‘ ڈرتے ڈرتے گیٹ پر پہنچے تو دیکھا تیل کا ٹینکر کھڑا ہے اور فروخت کرنیوالا یقینا اسے کسی لوٹ مار سے بچا لایا ہو گا‘ چار گنا قیمت پر فروخت کر رہا ہے اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں‘ ایک سچ مچ کا انقلاب دورکھڑا دانت نہیں نکوستا بلکہ سب سے پہلے سفید کلف دار گردنوں میں دانت گاڑ دیتا ہے‘ تیل اور اشیاء ضروریہ کی قلت ہو جائے تو جیب میں پڑے ڈالر پڑے رہ جاتے ہیں‘ دوم حکمران طبقہ اور ان کے حواری عام طور پر ایسی صورت حال سے سب سے زیادہ ناواقف ہوتے ہیں۔مزید یہ کہ ہماری ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ بلیک میں تیل فروخت کرنے والی ٹینکر مافیا کا کام خود ہی کر رہی ہے‘ وقت پڑنے پر بلیک کرنے کے لئے بھی تیل دستیاب نہیں ہو گا۔ تیسری پوسٹ میں مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ نیاز مندانہ ملاقات کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے۔ ’’زمیں برصوفی و ملا سلامی۔کہ پیغام خدا گفتند مارا۔ولی تاویل شان در حیرت انداخت۔خدا و جبریل و مصطفی را‘‘ میری طرف سے صوفی و ملا پر سلام ہے کہ جو ہمیں اپنی طرف سے خدا کا پیغام سناتے ہیں لیکن اس پیغام میں ایسی تاویل کرتے ہیں کہ اس پر خدا‘ جبرئیل اور مصطفی بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔’’سود کے ختنے کر کے مشرف بہ اسلام کرنے والے سود خور مُلا کے پاس عمران خاں سے ملنے کا وقت نہیں تھا‘‘ ایک نے اپنی انڈسٹری کے سوال پر منہ بھر کے گالی دے دی۔ایک نے آئین کی کتاب ہاتھ میں لے کر ’’مڈل فنگر‘‘ دکھا دی لیکن کسی کو حیا آئی نہ غیرت جاگے گی۔لگتا ہے کے پی کے مدینہ کی ریاست بنے گا۔باقی پاکستان امریکی کالونی سٹیٹس انجوائے کرے گا یعنی مہنگائی ‘ لوڈشیڈنگ اور روز کی ذلت۔ سوشل میڈیا کی تحریر کسی شخصیت کا احاطہ تو نہیں کرتی‘ پھر بھی دن کی روشنی میں ایک جھلک کی طرح تو ہے ہی۔ قدسیہ ممتاز سے تعارف’’روزنامہ 92‘‘ میں ان کے مضامین سے ہوا۔کالم پر چھپی تصویر میں خود تو ’’کہنہ‘‘ نہیں لگتی تھی البتہ ان کی تحریر کہنہ مشق ‘ تجربہ کار‘ منجھے ہوئے قلم کار کی تھی۔اردو ‘ فارسی‘ انگریزی زبان محاورے‘ مصرعے اور شعر کا برجستہ ‘برمحل استعمال‘ پورے کالم میں ایک سطر تو کیا لفظ بھی زیادہ نہ کم تحریر میں مقصدیت اور سنجیدگی کے باوجود تازگی‘ شگفتگی ‘ coniensانفارمیشن‘ جذبے کی سچائی متاثر کن تھی۔کشمیر‘ فلسطین ‘ مشرق وسطیٰ‘ وسط ایشیا‘ افغانستان‘ پاکستان ‘ امریکہ ‘ یورپ ‘ اسرائیل‘ بھارت‘ مسلم ممالک کے سربراہوں کی بے حسی‘ عوام کی بے بسی‘ یورپ امریکہ کی منافقت‘ بھارت‘ اسرائیل‘ امریکہ کا گٹھ جوڑ چین ‘ روس کی ابھرتی ہوئی طاقتیں‘ طالبان کا جذبہ و جنون‘ فتح مندی‘ ممبر و استقلال‘عفو درگزر پر کیا کیا شاہکارکالم پڑھنے کو ملے‘ ایسے ایسے شاندار‘ شاہکارکالم اردو میں شاید ہی کسی نے اتنی توجہ‘ صحت اور تسلسل سے لکھے ہوں۔میرا معمول ہے کہ جو کالم پسند آئے اسے پھر سے پڑھنے کے لئے محفوظ کر لیتا ہوں‘ آج کل انٹرنیٹ کی وجہ سے تحریریں محفوظ کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔خالد بھائی کو ایک دن ان کے کالم کی طرف توجہ دلائی‘ امریکہ میں مشتاق صاحب‘ ہارون الرشید بہت سے اور دوستوں کو بھی‘ جس نے پڑھنا شروع کیا تعریف کی اور مستقل قاری بن گئے‘ ایک سابق فوجی سے ذکر ہوا تو بولے ہاں‘ میں اسے پڑھتا ہوں ’’وہی ناں جو عورتوں کی اوریا جان ہے؟‘‘ عورتوں کی اوریا جان مقبول کے روزنامہ 92میں لکھے گئے تقریباً سبھی کالم فون میں محفوظ ہیں‘ تب تک رہیں گے جب تک یہ فون گم نہ ہو جائے۔ پھر اچانک اس کے کالم چھپنا بند ہو گئے بہت دن بعد پتہ کیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔حسین پراچہ صاحب سے فون نمبر مل گیا فون کیا تو پتہ چلا کہ گھر ہمارے قریب ہی ہے‘ قدسیہ ممتاز نے ’’لوکیشن‘‘ بھی بھیج دی تھی‘ راشد علیم کے ہمراہ اس لوکیشن پر پہنچے‘ سردیوں کے دن تھے امریکہ کے الیکشن ٹرمپ ‘ بائیڈن مقابلہ زوروں پردوسری طرف کورونا کی وبا نے ہر طرف تباہی مچا رکھی تھی‘ ہر کوئی منہ چھپائے ایک دوسرے سے دور دور سمٹ سمٹا کے بیٹھ جاتا۔اس ملاقات میں بھی امریکہ کے انتخابات اور کورونا کی تباہ کاریاں ہی زیر بحث رہیں۔پڑھنے میں وہ کہنہ مشق ضرور ہیں‘ دیکھنے میں کہنہ یا خستہ نظر نہیں آئیں۔ خوش مزاج ‘ بے تکلف‘ باخبر‘ امیدو مسرت کے ساتھ زندگی سے بھر پور۔اس کے بعد دو ایک بار فون پر بات ہوئی اور بس!چند دنوں سے سوشل میڈیا پر پوسٹ آنا شروع ہوئیں۔بس اب ایک ہی خواہش رہ گئی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی طرح وصیت کر جائوں کہ مجھے غلام زمین میں دفن مت کرنا۔یہ پوسٹ پڑھ کر ایک دھچکا لگا اس کے بعد 27جون کو Wattsapپر پیغام ملا لکھا تھا ابھی ابھی آپ کا کالم پڑھا ہے‘ آپ آنے والے انتخابات کو کس طرح دیکھتے ہیں۔میرا مطلب الیکشن انجینئرنگ کے بارے میں ۔وہ بھی اس صورت میں اگر انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے تو ؟ یہ کثرت سے پوچھا جانے والا سوال ہے‘ جس پر تفصیل سے لکھا جانا چاہیے‘ بار بار دھوکہ کھانے کے بعد لوگوں کا اعتماد ختم ہو گیا‘ دو ایک دن میں اس کا جواب!