ہماری روزمرہ معاشرتی زندگی میں دفتر اور’’دفتریت‘‘کا بڑا رول ہے،ہماری معمولی کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ انہی دفتروں اور محکموں کی نذر ہو جاتا ہے،جن میں سے بعض تو ایسے ہیں،جن کو ہم جانتے بلکہ خوب جانتے ہیں۔بلکہ کچھ تو ہمارے تہذیبی اور تمدنی ورثے کے امین اور ہماری معاشرتی زندگی کا جزو لاینفک ہے،جبکہ کچھ ایسے ہیں جن کے ساتھ ہم پوری طرح شناسا ہی نہیں ہو پاتے،پنجاب گورنمنٹ تقریباً پچاس محکموں پہ محیط ہے،جو اپنے اپنے دائرہ کار اور فعالیت کے سبب موثر اور معتبر ہیں،انتظامی اور مالی حجم کے اعتبار سے آخری نمبروں میں آنے والا’’اوقاف و مذہبی امور‘‘ہے،جہاں اگر کسی معروف یا سینئر آفیسر کو کوئی اہم اور کلیدی ذمہ داری تفویض ہو جائے،تو اسکے لواحقین،اس سے اظہارِ ہمدردی،اپنی منصبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کچھ پندو نصائح کا بھی اہتمام کرتے ہیں،حالانکہ امرِ واقعہ اس سے بہت مختلف ہے،یہاں پر جنہوں نے اخلاص اور محنت سے کام کیا، انہوں نے بڑی نیک نامی اور عزت پائی،لیکن بالعموم تاثر یہی ہے کہ اسکی شاید تشکیل و تخلیق ہی محض مزارات اور اس کی آمدن پر قبضہ کرنے کی غرض سے ہوئی ہے۔مالیاتی حجم اس محکمہ کا یوں ہے کہ ٹوٹل بجٹ 2ارب، 68کروڑ،88لاکھ روپے،جو کہ پنجاب گورنمنٹ کے کسی محکمہ کا شاید سب سے کم بجٹ ہو سکتا ہے اور پھر مستزاد یہ کہ اس کو یہ فنڈز بھی،ازخود ہی Generate کرنا پڑتے ہیں،جس کیلیے وقف اراضیات اور مزارات سے حاصل شدہ مالی وسائل اور کیش بکس آمدن وغیرہ خصوصی طور پر اہم ہے۔گورنمنٹ کی طرف سے اس آرگنائزیشن کو کوئی خاص گرانٹ وغیرہ نہیں ملتی۔ لیکن اس محکمہ کا’’اَورا‘‘(URA) اور دائرہ فکر و عمل ایسا وسیع ہے کہ ہر روز کہیں نہ کہیں۔۔۔کسی نہ کسی فورم پر ضرور زیرِ بحث رہتا ہے۔جسکا بنیادی سبب یہ ہے کہ مزارات و مساجد ہماری سوسائٹی کے بنیادی عناصر میں سے ایک اہم ترین عنصر اور ہماری زندگی کا مدار"Necluse" ہیں اور اوقاف کو ان کی تولیّت "Custodianship" کا اعزاز میسر ہے ،جس کے سبب عام آدمی کو اس محکمے سے ہمہ وقت واسطہ رہتا ہے،ان میں بعض مزارات ایسے ہیں،جنکے بغیر اس علاقے اور خطّے کی معاشرت اور ثقافت ہی ادھوری اور نامکمل محسوس ہوتی ہے،لاہور تو ہے ہی’’داتا کی نگری‘‘،داتا دربار کے بغیر لاہور کا تصوّر محض ادھورا ہی نہیںپھیکا بھی ہے۔ اس پر شاعروں نے کیا مضمون باندھے اور خیال آرائی کی: ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں سے بھرے لاہور میں کچھ پرانے یار مل جائیں نئے لاہور میں میں نے مَنّت مان لی ہے آج داتا کے حضور دیکھنا تم جلد واپس آؤ گے لاہور میں بہرحال یہ ساری باتیں اس لیے ہوئیں کہ جون سرکاری دفتروں میں بڑی تیزی بلکہ ہنگامہ خیزی کا مہینہ جانا جاتا ہے،بجٹ کی معرکہ آرائی،پھر مالی سال(30جون)کا بحسن و خوبی اختتام اور سال2021-2022 کا نئے جذبے،ولولے اور طنطنے کے ساتھ آغاز،لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ جہاں فنانشل آڈٹ،سیکیورٹی آڈٹ زیر عمل ہیں،وہاں سال کے اس مرحلے پر’’پرفارمنس آڈٹ‘‘کی بھی روایت ہونی چاہیے کہ گذشتہ سال کے اہداف کس حد تک حاصل ہوئے اور آئندہ کیا،کیا جانا درکار ہے۔ اس محکمے میں ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی امور ۔ انتظامی و دینی کیساتھ تحقیقی و تخلیقی روایات کا بھی علمبردار ہے۔روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل،بین المذاہب مکالمہ اور بین المسالک ہم آہنگی کیلئے صوبائی سطح پر یہ محکمہ اور پھر اس کا یہ شعبہ گراں قدر خدمات کا حامل ہے۔ایک ہزار کے قریب خطبائ،علمائ،مدرسین و موذنین و خدام پر مشتمل یہ وقیع’’عملۂ مسجد‘‘(Mosque Establishment) علم پروری،محبت کیشی،رواداری،انسان دوستی،صلح جُوئی اور بھائی چارے کے جذبوں سے آراستہ ہے۔اس شعبہ کا دائرہ فکر و فن۔۔۔محض محراب و منبر تک ہی محدود نہیں،بلکہ سماجی اور معاشرتی سطح پر سوسائٹی کو در پیش مختلف چیلنجز کے حوالے سے مروجہ قومی اور ریاستی پالیسیوں کے اثر و نفوذ میں بھی،اسکا کردار بڑا کلیدی اور بنیادی ہے،جیسے کوویڈ19کی حالیہ تیسری لہر میں حکومتی پالیسیوں کا مساجد و مزارات میں مؤثراطلاق اور بالخصوص ’’کورونا ایس او پیز پر علمدرآمد،ڈینگی کی بیخ کنی کے متعلق سوسائٹی میں آگاہی مہم،’’پولیو‘‘کی ترویج و تشہیر میں صدائے احساس ومحبت،صوبائی سطح پر نیوٹریشن سٹیرنگ کمیٹی (Nutrition Steering Committee)کی سفارشات کی ترویج، پاپولیشن ویلفیئر اور آبادی پر کنٹرول کے لیے صوبائی ٹاسک فورس "Provincial Task Force on Population Welfare"کے ساتھ مفاہمت اور اشتراک،انسداد تمباکو نوشی و’’انٹی نارکوٹیکس‘‘کیلیے "Awareness Compaign on HAZARDS of Tabacco Use of Jumma"، مدرسہ ایجوکیشن اور بالخصوص گورنمنٹ سیکٹر میں جامعہ ہجویریہ کی صورت میں واحد ’’ماڈل دینی مدرسہ‘‘کا انتظام و انصرام اور اس کا استحکام ، اوقاف کی مساجد میں حرم کعبہ کے لہجہ میں اذان کی ترویج کے لیے منفرد’’اذان پراجیکٹ‘‘رمضان شھرُ المواسات یعنی غمخواری اور غمگساری کا مہینہ میں،’’رمضان گفٹ پیک‘‘اور جامعہ ہجویریہ کے طلبہ کیلیے خصوصی تحائف، اسی طرح جدید تحقیقی تقاضوں سے آگاہی کیلیے پنجاب حکومت کی طرف سے امام ابوالحسن الشاذلیؒ ریسرچ سنٹر کی تشکیل اور اس میں اوقاف و دیگر تحقیقی اداروں کی شمولیت کے لیے پالیسی کی تشکیل،’’مفاہمت کی یادداشت‘‘ اور اس پر دستخط،امام الشاذلیؒ ریسرچ ماڈل کی پیروی میں اوقاف’’ای لائبریریز پراجیکٹ‘‘اور بابا فرید ریسرچ سنٹر کی تدوین و ترتیب، ’’اوقاف ایکٹ2020‘‘کے مضمرات کی بیخ کنی کیلئے دینی طبقات کے ساتھ مفاہمت کا فروغ ۔۔۔سمیت ایسے کئی امور شامل ہیں۔اگرچہ ادارے اور اس کے افراد کا طے شدہ مینڈیٹ میں سرگرم عمل رہنا ہی باعثِ عافیت سمجھا جاتا ہے،لیکن مذہبی اقدار و روایات میں بہت زیادہ وسعت کے سبب،اس شعبہ کو بھی بہت ہی مستعد اور فعال رہنا پڑتا ہے،یعنی اسکی کارکردگی اور کارگزاری نہ تو محض’’دفتریت‘‘تک محدود ہے،اور نہ ہی معمول کی پوسٹنگ،ٹرانسفر،پروموشن اور موواوور کے کیسسز کو نپٹانے تک۔بلکہ صوبائی سطح پر مذہب و دین،علم و تحقیق اور اسلامائزیشن و مدرسہ ایجوکیشن سمیت جملہ موضوعات و عنوانات میں،جوکچھ بھی سرکار اور دربار سے متعلق ہو۔۔۔کے بارے اسے خود کو’’اَپ ڈیٹ‘‘رکھنا پڑتا ہے، جس کے لیے معمول کی دفتریت سے کچھ زیادہ کرنا،درکار ہوتا ہے۔یہ شعبہ"Human Resource" کے اعتبار سے بہت محدودِے استعداد رکھتا ہے،مگر یہ معدودِ چندورکر اپنے کام کے ساتھ بڑے Committed ہیں،جس پر اس کے ناقدین بھی، حیرت زدہ سے رہتے ہیں،اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ بہت سے تعلیمی،تخلیقی پراجیکٹس کے لیے مالی وسائل اور افرادی توانائی، از خود پیدا" "Genrateکرنے کا داعیہ اور جذبہ رکھتے ہیں،جس کے سبب،کسی خیال کو عمل میں ڈھالنے کے لیے معمول کے بہت سے’’بیریئر‘‘سدِّراہ نہیں بنتے۔جس کی ایک مثال حالیہ اذان پراجیکٹ ہے جس پر ٹاپ5کومحض عمرہ ٹکٹ۔۔۔نہیں،بلکہ’’عمرہ پیکیج‘‘،سمیت ایک ایک لاکھ روپیہ انعام دیا گیا،جبکہ اس پراجیکٹ کے انسٹرکٹر اور ادارہ کے پرنسپل کو بھی ایسے ہی اعزازت پیش ہوئے، جو کہ سراسر پرائیویٹ اشتراک سے تھا۔