کسٹم حکام اور اہلکاروں کی طرف سے اپنے ہی گوداموں سے کروڑوں روپے کا سامان چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ نان کسٹم پیڈ اشیا کو قبضہ میں لے کر ہڑپ کرنے یا اونے پونے داموں من پسند افراد کو فروخت کرنے کے انکشافات معمول بن چکے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ لوٹ مار کسی ایک علاقے تک محدود ہے نا ہی کسی ایک سطح کے ملازمین تک بلکہ جس کا جتنا بس چلتا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جا رہا ہے۔ فیصل آباد کے سربراہ نے ضبط شدہ اے سی اپنے گھر میں لگوا لئے تو لاہور کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے لاٹ نمبر 194ضبط کر کے من پسند تاجر کو دینے کی اطلاع کے باوجود محکمہ نے کسی قسم کی کارروائی ضروری نہ سمجھی۔ اسی طرح اسلام آباد میں نیلامی کی رسم پوری کرنے کے بعد قیمتی کاریں اپنے ہی رشتہ داروں کو فروخت کر دی گئیں۔ نااہلی اور عدم دلچسپی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ادارہ پورے ملک سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ضبط کرتا ہے مگر ان گاڑیوں کو محفوظ پارک کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ۔ گاڑیاں موسم اور کسٹم اہلکاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جاتی ہیں اور چند دنوں بعد ہی ان کا ڈھانچہ باقی رہ جاتاہے کیونکہ قیمتی سامان اہلکار غائب کر دیتے ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت کسٹم کی ضبط شدہ اشیا کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے ،ان کی مکمل حفاظت اور نیلامی میں شفافیت کو یقینی بنائے تاکہ قومی خزانہ میں لوٹ مار کا سلسلہ تھم سکے۔