امریکہ خود کو انسانی حقوق کا چمپئن سمجھتا ہے۔ امریکیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں انسانی حقوق کی پامالی کا ادنیٰ سا واقعہ بھی رونما ہوتا ہے تو امریکی دل دھڑکتا ہے۔ مگر کتنی حیرانی کی بات ہے کہ 22ستمبر کو ریاست ٹیکساس کے بڑے شہر ہوسٹن میں گجرات کے قصاب اور کشمیریوں کے قاتل نریندر مودی کی آمد کے موقع پر اس کے سواگت کے لئے خود صدر امریکہ چل کر ہوسٹن جا رہا ہے تاکہ دنیا کو میسج دیا جا سکے کہ مودی ٹرمپ بھائی بھائی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہوسٹن کے استقبالیے میں امریکہ بھر سے 50ہزار ہندو شرکت کریں گے۔ اس موقع پر ٹیکساس میں کام کرنے والی پاکستانی اور اسلامی تنظیموں نے ایک تاریخی احتجاجی پروگرام ترتیب دیاہے تاکہ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کیا جائے‘ آر ایس ایس کے انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ کئے جانے والے بدترین سلوک کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ نریندر مودی کے فاشزم کے بارے میں دنیا کو بتایا جائے۔ ایک امریکی ٹی وی چینل کی محتاط رپورٹ کے مطابق صرف ٹیکساس کے چار بڑے شہروں ہوسٹن‘ ڈیلس ‘ آسٹن اور سین انٹونیو سے کم از کم 20ہزار افراد احتجاج میں شریک ہوں گے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق مودی کے خلاف سٹیڈیم سے باہر احتجاج کرنے والوں کی تعداد پچیس تیس ہزار سے کم نہ ہو گی۔ اس موقع پر نہ صرف پاکستانی اور کشمیری اس احتجاجی ریلی میں شرکت کریں گے بلکہ بھارتی سکھ‘ عرب اور خود امریکی بھی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اس تاریخی احتجاج کا حصہ بنیں گے اور عالمی برادری اور امریکی حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ وہ فی الفور کشمیر میں کرفیو اٹھوائیں‘ ذرائع ابلاغ کا بلیک آئوٹ ختم کروائیں اور یو این او کی قرار دادوں کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی عملی تکمیل پر عملدرآمد کروائیں۔احتجاج کے موقع پر ہوسٹن سمیت امریکہ کی ممتاز مسلم و غیر مسلم شخصیات خطاب کریں گی۔ ان میں ’’یقین انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے بانی ممتاز عالم دین شیخ یاسر قاضی‘ معروف اسکالر اور سپیکر امام عمران سلیمان‘ مسٹر اظہر عزیز ‘ ہوسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر ثمینہ سلیم‘ سونیتا واشوا۔ جنوبی ایشیائی تاریخ و سیاست کے ماہر پروفیسر پیٹر فریڈرک‘ بھارتی اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار پوان سنگھ اور آسٹن وڈ وغیرہ خطاب کریں گے۔ الائنس فار جسٹس اینڈ اکائونٹبیلٹی کی طرف سے 22ستمبر کو این آر جی سٹیڈیم ہوسٹن کے باہر احتجاجی ریلی میں شرکت کے لئے ہر باضمیر امریکی کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ الائنس مختلف تنظیموں پر مشتمل ہے جو دنیا میں انسانی حقوق کی سربلندی ‘ تحمل و برداشت کے فروغ اور ظلم کے خلاف جمہوری طریقے سے علم بغاوت بلند کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ اس الائنس کی طرف سے جاری کردہ دعوت نامے کی پیشانی کا جھومر مارٹن لوتھر کنگ کا یہ تاریخی قول ہے۔ مارٹن لوتھر نے کہا تھا’’ہماری جنریشن کبھی آج کے برے لوگوں کے نفرت انگیز نسلی نعروں اور کاموں پر ہی نہیں پچھتائے گی بلکہ وہ اچھے لوگوں کی اس شرمناک خاموشی پر بھی پچھتائے گی جو انہوں نے ظلم کے بارے میں اختیار کر رکھی ہے۔ ہم بڑے جذباتی لوگ ہیں ہم تبسم بکھیرتے الفاظ کی تہہ میں چھپے ہوئے زہر خند کو محسوس کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 22جولائی کو عمران خان کے وائٹ ہائوس کے دورے کے موقع پر جب ٹرمپ نے کشمیر کے بارے ثالثی کی پیش کی تو ہم خوشی کے شادیانے بجانے لگے اور بقول شاعر ؎ اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں امریکہ کے دورے سے واپس پاکستان پہنچ کر جناب عمران خان خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ آج 22جولائی کے ٹھیک 2ماہ بعد 22ستمبر کو ثالثی کروانے والا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوسٹن جا رہا ہے تاکہ اپنے اس بھارتی دوست کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکے جس کے دونوں ہاتھ خون مسلم سے رنگ ہوئے ہیں اور اس نے ہاتھوں پر دستانے پہننے کا تکلف بھی نہیںکیا۔ وہ ساری دنیا کے سامنے مسلمانوں کے گجرات اور کشمیر میں قتل عام کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ اس لئے گجرات کے قتل عام کے بعد امریکہ نے مودی کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ٹرمپ کے بارے میں اندازے کی اس غلطی پر وزیر اعظم عمران خان نہ شرمائے اور نہ ہی انہوں سے اس بارے میں قوم سے معذرت کی کہ وہ شخص کیا ثالثی کرے گا جو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ نہیں ظالم مودی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسنا۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ ۔ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی وہ تنظیم ہے جس میں زیادہ تعداد عربوں کی ہے جبکہ اکنا میںزیادہ تعداد پاکستانی نژاد امریکیوں کی ہے۔ اسنا نے چند ہفتے قبل ہوسٹن میں ڈیمو کریٹ پارٹی کی طرف سے اگلے امریکی انتخاب کے متوقع امیدوار برنی سینڈر کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا تھا۔ اس موقع پر برنی سینڈر نے کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر شدید ترین احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں سکیورٹی کے نام پر خوفناک کریک ڈائون کیا جا رہا ہے اور نریندر مودی کی حکومت مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ برنی سینڈر نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور اس معاملے کو بھر پور طریقے سے اٹھائے اور مودی کو کرفیو ہٹانے‘ ذرائع آمدو رفت بحال کرنے اور ذرائع ابلاغ پر عائد پابندی ختم کرنے پر مجبور کرے اور سکیورٹی کونسل اور یو این او کی قرار دادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے 27ستمبر کو اجلاس کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نریندر مودی اور عمران خان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ایک مفاہمتی ملاقات کرا سکتے ہیں۔ مودی کی ہٹ دھرمی اور شدت پسندی کو دیکھتے ہوئے یہ امر ناممکن نہیں تو بہت محال نظر آتا ہے۔ مودی نے آر ایس ایس کا انتہائی متعصبانہ بیانیہ انتہا پسند ہندوئوں کو گھول کر پلا رکھاہے۔ ہندو توا کا نعرہ آر ایس ایس کا ماٹو ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو۔ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی کے الیکشن کے موقع پر سب سے زیادہ امریکہ میں بسنے والے خوش حال انتہا پسند ہندوئوں نے کی ہے اور وہی مودی کے لئے ہوسٹن میں استقبالیہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ چند روز قبل اسنا کے اجلاس کے موقع پر اس اسلامی تنظیم کے بھارتی نژاد سابق صدر اظہر عزیز نے ہوسٹن انڈین قونصل جنرل سے ملاقات کی اور انہیں کشمیر میں مظالم بند کرنے اور انسانی حقوق کی پامالی فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور قونصل جنرل کو اس بارے میں اسلامی دنیا اور انسانی برادری کی تشویش سے آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ ہمیں پروا نہیں۔ انڈیا میں بھارتی برتری قائم کرنے کے لئے اگر ہمیں ستر ہزار کشمیری مارنے پڑے تو ہم اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اس پر اظہر عزیز نے کہا کہ یہ متشدد لب و لہجہ اور الفاظ غیر سفارتی ہیں۔جس پر مودی والی رعونت سے کام لیتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل نے کہا ہمیں اس کی پروا نہیں۔22ستمبر کو ہوسٹن اور پھر 27ستمبر کو نیو یارک میں احتجاجی ریلیوں کی بنیادی مقصد یہ ہے کہ امریکہ نریندر مودی کی ظالمانہ اور دستور شکن پالیسیوں کی حمایت سے دستبردار ہو جائے اور کشمیری میں جاری مظالم بلا تاخیر بند کرائے۔ٹیکساس میں یہ نعرہ بڑا مقبول ہوا ہے اور وہاں کے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے چلو چلو ہوسٹن چلو!