اڑتالیس سالہ جینین ہینس ہالینڈ کی سیاست دان ہیں وہ ہالینڈ کی پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس وقت عراق کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی ہیں۔ جینین ہینس ہالینڈ کی مرکزی سیاست کا اہم حصہ رہی ہیں۔ 2016 اور 2017 میں یہ ہالینڈ کی وزیر دفاع تھیں اور اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے ادا کر رہی تھیں، ہالینڈ کی وزارت دفاع کچھ زیادہ پریشان رکھنے والی ہے بھی نہیں ،ہالینڈ کے بغل میں افغانستان ہے نہ اسکی سرحدیں اپنی لائن آف کنٹرول جیسی ہیں جہاں ہفتوں ہفتوں چاند ماری گولہ باری ہوتی رہے ،جینن سکون سے وزارت دفاع کا دفتر سنبھالے ہوئے تھیں کہ جولائی 2016 میں افریقی ملک مالی میں ہونے والا ایک حادثہ جینن ہینس کے لئے وبال بن گیا ، اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل دو ولندیزی سپاہی ایک مشق کے دوران دستی بم پھٹ جانے سے ہلاک ہو گئے ، یہ ایک حادثہ تھا جس میںچار ہزار کلومیٹر دور بیٹھی جینن کا کوئی کردار نہ تھا ،واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ڈچ سیفٹی بورڈ نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ مشق کے دوران اچانک پھٹ جانے والے بم پرانے اور ناکارہ تھے جنہیں چیک بھی نہیں کیا گیا اکتوبر 2017 میں رپورٹ آنے کے بعد جینن ہینس نے ایوان زیریں میں اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ اسے جانے دیں یہ 2004 کی بات ہے یونان کے شمال میں ایک چینوک ہیلی کاپٹر اچانک تیز ہواؤں میں کے گھیرے میں آپھنستا ہے ،ہیلی کاپٹر میں کوئی فنی خرابی تھی, نہ وہ پرانا تھا اسے اڑانیں بھرتے ہوئے سال بھر ہی ہوا تھا,تیز ہواؤں کے باعث فضا میں ڈولنے لگتا ہے پائلٹ ہیلی کاپٹر کو 4000 فٹ کی بلندی پر لے جا کر محفوظ پرواز کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن وہ ڈولتا ہوا نیچے آ گرتا ہے جس کے نتیجے میں 16 افراد جان سے چلے جاتے ہیں, حادثے کے بعد اپوزیشن تنقید کرتی ہے کہ امدادی سرگرمیاں دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئیں امدادی کارروائیاں بروقت شروع ہوجاتیں تو جانی نقصان کم ہو سکتا تھا. حادثے کے بعد یونان کے وزیر دفاع اسپیلیوئس اسپیلیوٹوپولوس نے یونان کی فضائیہ کے سربراہ کو امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا اور اپنا استعفیٰ بھی پیش کردیا۔ اچھا ذرا کروشیا چلیں، کروشیا یورپ کا ہی ایک چھوٹا سا خوبصورت ملک ہے چالیس لاکھ کے قریب اس چھوٹے سے ملک کے ایک چھوٹے سے شہر زیدر سے گذشتہ برس آرمی کا ایک تربیتی طیارہ فضا میں بلند ہوتا ہے، یہ ایک معمول کی پرواز تھی طیارہ فضا میں بلند ہوا لیکن صحیح سلامت اتر نہ سکا اورکسی فنی خرابی کے باعث کریش ہو گیا اس کے دونوں پائلٹ ہلاک ہو گئے ، اس واقعے کو کسی بھی رخ سے دیکھا جائے یہ حادثہ ہی تھا دنیا کا کوئی ہواباز فضا میں زقند بھرتے ہوئے صرف پرامید ہی ہوسکتا ہے وہ بحفاظت واپسی کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ کروشیائی لوگ زندگی سے پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ طویل عرصے تک جینا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ واقعہ افسوس ناک تھا کروشین عوام افسردہ ہو گئے ان کی یہ افسردگی ان کے وزیر دفاع ڈیمر سے نہ دیکھی گئی اس نے کچھ دیر کے لئے سوچا اور اگلے ہی لمحے اس نے حادثے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کر دیالال بہادر شاستری یوپی سے 1952ء بھارت میں راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ مرکزی کابینہ میں انہیں ریلوے اور ٹرانسپورٹ کا وزیر مقرر کیا گیا۔ ستمبر1956ء میں محبوب نگر میں ٹرین کے ایک حادثے میں 122 مسافر ہلاک ہوگئے یہ حادثہ کسی کی غفلت کا نتیجہ تھا بھی تو وہ شاستری صاحب نہ تھے ۔پتلے دبلے شاستری اصولی آدمی تھے انہوں نے اخلاقی طور پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دینے میں دیر نہ کی۔س وقت پنڈت نہرو وزیراعظم تھے انہوں نے استعفیٰ منظور نہ کیا اور کہا کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں ۔عجیب اتفاق دیکھئے کہ تین ماہ بعد تامل ناڈومیں ریلوے کو ایک اور حادثے کا سامنا کرنا پڑا اس بار 144 اموات ہوئیں۔ شاستری صاحب نے اخبارات میں کٹی پھٹی لاشوں کی تصاویر دیکھیں اپوزیشن کی تنقید سنی اور ٹھنڈی سانس بھر کر بڑا فیصلہ کر لیا انہوں نے حادثے کی ''اخلاقی اور آئینی‘‘ ذمہ داری قبول کی اور ایک بار پھر مستعفی ہوگئے ۔اس بار وزیراعظم نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا اور پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ شاستری صاحب حادثے کے ذمہ دار نہیں مگر ان کا استعفیٰ وہ اس لیے قبول کر رہے ہیں کہ اس سے آئین کی بالادستی کی مثال قائم ہوگی۔ یہ سب لوگ ساڑھے پانچ چھ فٹ کے ایک دماغ ،دو آنکھوں ،دو ہاتھوں والے ہمارے جیسے انسان ہی ہیں یہ اور ان جیسے کتنے احساس ذمہ داری کو سمجھنے والے دنیا کے ہر خطے میں بلا رنگ نسل مذہب کے پائے جاتے ہیں بس نہیں ہیں تو ایک پاکستان میں،تحریک انصاف کی تبدیلی بھی ایسے وزیر مشیر نہ لاسکی جنہیں کسی حادثے واقعے پر کچھ شرم آسکے ، موجودہ حکومت پر اتنی تنقید ہو چکی ہے کہ اب تو سچ میں کچھ کہنے کو جی نہیں چاہتا ، موجودہ دور حکومت میں ٹرین حادثوں کے چھوٹے بڑے 44 واقعات ہو چکے ہیں لیکن ٹھنڈی ٹھار کار سے ٹھنڈے ٹھار دفتر تک سفر کرنے والوں کی جبینوں پر ایک شکن تک نہ آئی، یہی تحریک انصاف ماضی میں اپوزیشن بنچوں پر اس قسم کے حادثات پر وہ شور و غوغا مچاتی تھی کہ ایوانوں میں کان پڑی آوازیں سنائی نہ دیتی اب کوئی پوچھ بھی لے کہ جناب کوئی اخلاقی ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور یہی سوال وزیر ریلویز اعظم سواتی صاحب سے پوچھا بھی گیا توجناب نے اپنے استعفے کو معجزے سے مشروط کردیا ۔کہتے ہیں میرے استعفے سے جاں بحق ہونے والے زنددہ ہوسکتے ہیں تو استعفیٰ دے دیتا ہوں کیا۔اب کچھ کہنے کے لئے رہ گیا ہے ؟ کاش کروشیا،ہالینڈ ،سنگاپور سے کوئی حساس باکردار سیاست دان لاکر ریلوے کا وزیر ہی لگا دے ورنہ ریل کا توبس خدا ہی حافظ!