دن گزر گیا، نیا دن نئی خبروں کو لے کر آیا، دھیان اچاٹ ہو گیا اور پہلے روز ہی سوگواری۔ داتا دربار کے باہر ایک بدبخت، بدعقیدہ نے انسانیت سوزی کے نصاب سے ایک بہیمانہ سبق دھرا دیا، وہی خودکش حملہ، گیارہ قیمتی انسانی جانوں کو لے گیا۔ پانچ پولیس والے تھے، باقی زائرین تھے۔ گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ یہ ماتم کی دریاں اب بہت دن تک بچھی رہیں گی۔ کسی دن کوئی وزیر جا کر نگارخانے میں نئی تصاویر کا اضافہ کرکے آ جائے گا۔ پھر وہ بے چارے اہل خانہ، بیوائیں اور بالکل ہی کمسن بچے چپکے چپکے آنسو بہاتے نجانے زندگی کے کتنے کربناک ایام گزاریں گے۔ داتا دربار سے محبت کرنے والے پھر سے آستان بوسی کا جذبہ لئے پروانہ وار شمع روحانی کی زیات کیلئے مسلسل حاضر ہو رہے ہیں۔ زائرین دربار کی محبت ہمیشہ سے سادہ اور بے لوث نظر آتی ہے۔ مظلوم طبقہ ہے۔ بہت پرامن لوگ ہیں، ظلم کا وار سہہ کر بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ چند سال پہلے بھی ایسے ہی درندوں نے دربار کا تقدس پامال کیا تھا۔ تین سو کے قریب بے گناہ زائرین واصل بحق ہو گئے تھے۔ کرسی دار اسی طرح کے بیان دے کر سرخرو ہو رہے تھے۔ کتنے ہی گھروں میں ابھی تک سہاروں کی روشنی کیلئے چراغ نہیں جلتا۔ دوسرے ہی روز پھر اہل محبت کا دیوانہ وار حاضری کا سلسلہ تھا۔ کراچی تا خیبر مزارات کی بے حرمتی کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ محبت کے کٹوروں میں عرق عقیدت بھرنے والے پھر سیہون میں دھمال سے رکتے نہیں۔ حکومت کے گھڑ سوار مذمتی بیان دیتے ہیں اور بھرے ہوئے لوٹے کا منہ دھو کر شاداب ہو جاتے ہیں۔ تانے بانے اسرائیل، بھارت اور افغانستان سے جڑ جاتے ہیں۔ حسن اتفاق نہیں ہے، قوم کی بدبختی ہے کہ افواج پاکستان کی چھاؤنیوں، پولیس کے مراکز اور جانبازان وطن کے قافلوں پر حملے ہوتے ہیں یا مزارات صالحین پر حملے ہوئے ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے اندرونی ہمدردوں کا اپنا نقطہ نظر ہے، کچھ منافق زبانی ہیں اور کچھ منافق ایمانی ہیں۔ انہیں اپنی پسند کے مراکز برائے دہشت گردی مزارات اولیاء ہی نظر آتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان کے بانیان کے مراکز یہی مزارات اولیاء تھے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ برصغیر میں اسلام کی راسخانہ جڑیں انہی مزارات کے عقیدت مندوں کے قلوب میں پھلتی پھولتی ہیں۔ مزارات سے عقیدت رکھنے والے بلالی دنیا کا ذوق ایمان رکھتے ہیں۔ ایک صدی بعد آخر کو حق اگلنا پڑا کہ ہم حجاز مقدس میں اگر فرنگی کی چال پر رقصاں نہ ہوتے تو آج ٹرمپ بہادر کی بدمست بیان بازی سے سمع خراشی نہ ہوتی۔ فتویٰ تو روایت کا بندھا اور حکومت کا کسا وہ، بداندیش داغتاہے جس نے آنکھ پر مفادات کی پٹی باندھی ہوئی ہوتی ہے۔ تحریکیں بہت غلبۂ دین کی اٹھتی ہیں، پھر احیا اسلام کے نعرے گونجا کرتے ہیں۔ الٹ پھیر کا فساد ہوتا ہے۔ چند سال بعد قلعی کھلتی ہے کہ فرنگی تھا۔ نصرانی تھا۔ ہندو تھا یا یہودی پیچھے بیٹھا ڈوری ہلا رہا تھا۔ جی چاہتا ہے کہ منافقت کے گہرے چالبازوں پر روزانہ خامہ فرسائی ہو لیکن منافقت تو روزانہ بے شمار رنگین بچوں کو جنم دیتی ہے کہ بھولے لوگ بھول جاتے ہیں اسے ماحول کی رنگینی بتا کر کئی مداری اپنی بقراطیت کا بھرم رکھتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کی ڈوری کون ہلاتا ہے اور کٹھ پتلی کون ہے۔ اگر کوئی اخلاقی یا مذہبی ہمدردی کیلئے مفتی سے پوچھے کہ حضرت یہ خودکش حملہ کیوں اور کیسے، جواز و عدم جواز پر کوئی شرعی قدغن کا کلمہ ثانیہ فرمائیے تو جواب میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ابھی احقاق حق نہیں ہو رھا۔ کراچی میں حضرت شیخ الاسلام کی کار پر نجانے کن لوگوں نے بوچھاڑ کر دی تو حضرت شیخ نے جو بیان ارشاد فرمایا وہ بہت واضح تھا کہ غیر ملکی لوگ ان کے دشمن ہیں لیکن یہ تو ثابت ہو گیا کہ وار کرنے والے ان غیر ملکیوں کے اندرونی ایجنٹ ہیں۔ ایک دہشت گرد نے سوشل میڈیا پر دہشت گردی کی ترغیب دیتے ہوئے یہ ژاژ خانی کی ہے کہ علی ہجویری کا مزار نظر نہیں آتا۔ یہ بھونڈی ترغیب اور واضح دعوت ہے کہ مزار مقدس پر جارحیت کی جائے۔ گزشتہ ادوار میں مخصوص حکومتوں نے اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت چند مذہبی جنونی گروہوں کی پشت پناہی کی، اس اشیر باد کے نتیجے میں مستقل قبضہ گروپوں، مذہبی منافرت کے منظم جتھوں کا وجود ابھراہو۔ بہت سے تیز طرار حکمرانوں نے اسلام کو اپنے اقتدار کی مدت بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔ اسی دور نامبارک کی نحوستیں اب تک پاکستان کے شریف النفس اور سادہ عوام پر طاری ہیں اور روایتی فسادگر اب معتبران قوم میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے پاکستان کی فوج کو دہشت گردی کے خلاف لڑنے پر اس بری طرح سے کوسا تھا کہ فوج کا ہرخوش نیت جانثار ملت کو دائرہ شہادت سے خارج کرکے صف قاہران میں لا کھڑا کیا تھا۔ بقراطی اب بھی ایسے لوگوں کو مصلحین اور صالحین خالص کی صف اول میں شمار کرنا فریضۂ اقامت دین سمجھتے ہیں۔ حکومت کیا کرے؟ اور حکومت کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معاشی بگاڑ اور سختی نے حکومت کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔ اگر امن عامہ کی صورتحال مذہبی حلقوں کو متاثر کرتی ہے تو خرابی کا ایک نیا باب کھلے گا۔ فوری ضرورت ہے ایسے نئے مضبوط اورر قابل عمل اقدامات کی جن کے نتائج مذہبی ہم آہنگی میں قوت پیدا کرے۔ سب سے پہلے تو ایسے شرپسند افراد کو قانونی دائرے میں لا کر آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے جو امت مسلمہ کے نوجوانوں کو مزارات پر حملہ کرنے کی ترغیب کا کوئی بھی انداز اپناتے ہیں اور پھر مزارات پر حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں پوری نگرانی کی جائے اور حفاظتی فرائض انجام دینے والے اہلکاران کی معاشی اور معاشرتی ضروریات کا پورا خیال رکھا جائے تاکہ وہ یکسوئی اور خوش دلی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں کیونکہ یہ حقیقت بعد از سانحہ طشت ازبام ہوتی ہے کہ سکیورٹی گارڈوں کو کئی ماہ تک تنخواہ بھی نہیں ملتی ہے۔ اگر مبینہ خبرمیں صداقت ہے تو ایسی خرابی کی اصلاح فوری طور پر ضروری ہے۔ حکومت صوفیا کرام کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے مزارات پر علمی حلقے قائم کرنے کیلئے اہل فکر و دانش سے رابطہ کرے اور نوجوان طبقے کیلئے ضروری تعلیمی نصاب میں صوفیا کرام کی وسعت قلبی اور ان کی تعلیمات کی ہمہ جہت خصوصیات سے آگاہی کیلئے مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک علمی آگاہی کی منظم مہم کا اہتمام کرے۔