بات ہورہی تھی ان کہانیوں کی جو اسلام آباد سے راولپنڈی تک محو پرواز ہیں۔ ممکنہ سکرپٹس کی اور نئے پرانے ان ایکٹرز کی جو ان ممکنہ کہانیوں میں اپنا کردار نبھائیں گے۔ بات صدارتی نظام کی بھی ہوئی اور بنیادی جمہوریتوں کی بھی۔ ٹیکنو کریٹس کی بھی اور اسمبلیاں توڑ کر نگران حکومت کا ڈول ڈالنے کی بھی۔ پھر یہ کہ اس سیاسی ٹیلرنگ کے ہنگام میں کہانیوں اور سرگوشیوں کے آس پاس کچھ عالمی حقیقتیں بھی ہیں اور باقی وہ جو ہمارے پڑوس میں کھڑی ہمیں مسلسل گھور رہی ہیں۔ بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات تہہ در تہہ خاصے امتحان اور دبائو کی زد میں ہیں۔ وزیر اعظم چند روز قبل ایران میں تھے۔ بیچارہ میڈیا ان کی ’’سلپ آف ٹنگ‘‘ کو رو رہا تھا۔ ریٹنگ کی دکان اور چھابے والے اس بات کی طرف نہیں آرہے تھے کہ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل ایران کے خلاف جو کمربستہ ہیں تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ چلیے سعودی عرب کی ماضی قریب کی مدد بھول بھی جائیں ، اسرائیل سے ہمیں کیا لینا دینا۔ سعودی عرب میں پاکستان کی ملازم لیبراور زر مبادلہ کو بھی نظر انداز کردیں مگر ٹرمپ کے امریکہ کو کون سمجھائے گا؟ وہی امریکہ جو اپنے بھائی بھارت کو بھی بار بار ایران سے تیل خریدنے پر خبردار کر رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بار بار بھارت کو ’’چاہ بہار‘‘ کے ذریعے افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے پر برے برے چہرے بنا کر سمجھا رہے ہیں۔ مگر بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کے پچھواڑے میں اپنی ’’سٹریٹجک گہرائی‘‘ سے ہاتھ دھونے پر تیار نہیں۔ ایران سے بھارت کے تیل خریدنے پر تو سعودی عرب بھارت کو متبادل تیل دینے کی پیش کش بھی کرچکا ہے۔ بھارت، امریکہ کو بار بار یہی کہتا ہے کہ ’’چاہ بہار‘‘ کا متبادل ’’گوادر‘‘ ضرور ہے مگر وہاں چین کا جو اثر و رسوخ ہے؟ ایسے میں سنٹرل ایشیا کی ریاستوں تک میں تجارتی راہداری کیسے بنائوں؟ کیونکر بنائوں؟ جس خطے میں ہم رہتے ہیں اس خطے کے لیے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا ایک سکرپٹ ہے جس کے لیے امریکہ اور IMF پاکستان کی بار بار بازو مروڑ رہے ہیں۔ امریکہ مسلسل پاکستان کو FATF کے ذریعے نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف اقدامات کے لیے PUSH کر رہا ہے۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سنجیدہ کاوشیں کر رہی ہے اس امریکی چکرویو سے نکلنے کی مگر اس کے پیچھے بھارت اور اسرائیل بھی ہیں۔ اس وقت امریکہ افغانستان سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ پاکستان اپنے ممکنہ کردار کے بدلے کچھ رعائتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کم سے کم رعایت پر معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت پاکستان کے اس کردار پر تشویش زدہ بھی ہے اور رنجیدہ بھی۔ امریکہ افغانستان سے جانا چاہتا ہے، جا بھی رہا ہے مگر وہ افغانستان میں اپنی طویل موجودگی اور پھر ناکامی اور شکست کا ملبہ کس پر ڈالے گا؟ کسے الزام دے گا؟ پاکستان کے مؤثر حلقے اس کا مکمل احساس اور ادراک رکھتے ہیں۔ مدرسوں کو وزارتِ تعلیم کے تحت لانا، امریکہ کو نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی … جو کچھ ہے، اسی درد کی لہریں ہیں۔ ایسے میں پاکستان ایران سے کس قدر گرم جوش ہوسکتا ہے؟ اگر ہم ایران سے سردمہری اختیار کرتے ہیں تو اس سے جو خلا پیدا ہوگا اسے ’’را‘‘ اور ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ اپنے اپنے مفاد کے لیے اس طرح کھیلیں گے کہ ہزارہ برادری پھر احتجاج کرتی نظر آئے گی۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اکنامک سکرپٹ پر عمل کر رہی ہے۔ امریکی نمائندے اور زلمے خلیل زاد خطے کے ممکنہ سیاسی مستقبل کا مسودہ ڈسکس کرنے آئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے پالیسی میکرز ان حدود اور قیود کے اندر اپنے لیے SPACE پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس معاشی جکڑ بندی سے نجات کی صورت کیا ہوگی؟ یہ واضح ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ گلوبل پالیٹکس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اور بیرونی ہینڈلنگ کا سارا انحصار اس کے داخلی حالات پر ہوتا ہے۔ اس منظر نامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ چند ووٹوں کی برتری سے نیا پاکستان بنانے کی سعی لاحاصل۔ اگر عمران خان ناکام ہوجاتے ہیں تو متبادل کیا ہے؟ اسٹبلشمنٹ کی زبان میں کرپٹ زرداری، بدعنوان شریفس یا موجودہ حکومت؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ ایک شاعر کی زبان میں، جو مری ریاضت نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی … سوچنا ہوگا… حاکم اور محکوم دونوں کو… تمام سٹیک ہولڈرز کو… تمام ایکٹرز کو … تمام کہانی کاروں کو … سسٹم کے سائنسدانوں کو اور تجربہ گاہوں کو کہ اس مرتبہ بھی تجربہ ناکام ہورہا ہے؟ مکمل ناکام ہوگیا تو متبادل آپشنز کیا ہوں گے؟ عوام خواب دیکھتے دیکھتے تھک گئے ہیں۔ آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ حقیقتیں ہیں کہ بدلتی ہی نہیں۔ تعبیر ہے کہ ملتی ہی نہیں۔ منزل ہے کہ آتی ہی نہیں۔ راہبروں کی راہبری کا مسئلہ ہے یا قافلہ ہی نااہل ہے۔ آئین … قانون … جمہوریت … الیکشن … ٹاک شوز … اداریے … کالمز …سیاسی لیڈران۔ نیا پاکستان … پرانا پاکستان …شریفس … زرداری … عزیز ہم وطنو … سب کچھ کر گزرے۔ آئیے سرگوشیوں میں کہانیاں سنانے والوں سے پوچھیں۔ نئے نئے سکرپٹس کے قلم کاروں سے بات کریں۔ ان اداکاروں سے مکالمہ کریں جو ان سیاسی ڈراموں میں اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ مگر یہ سب تو نقاب اوڑھے ہوئے ہیں۔ تمہارا اور ہمارا مقدر تو بس یہ کہانیاں ہیں اور چہرے ہیں۔ پرانے زمانے کی بادشاہتوں میں محلوں کے اندر غلام گردشیں ہوا کرتی تھیں۔ آج کی اکیسویں صدی میں بھی غلام گردشیں موجود ہیں۔ شکلیں بدل گئی ہیں۔ حکومتوں کی، عوام کی، حکمرانوں کی، مگر تقدیر وہی ہے۔ اقلیت حاکم ہوتی ہے، اکثریت محکوم، جمہوریت ہے تو کیا ہوا؟ جمہوریت نہ ہوگی تو کیا ہوگا؟ منیر نیازی نے کیا خوب کہا ہے: سارے منظر ایک سے ہیں، ساری باتیں ایک سی، سارے سپنے ایک سے ہیں، ساری راتیں ایک سی، ساری جیتیں ایک سی ہیں، ساری ماتیں ایک سی!!!