دو سہاروں پہ حکومت کھڑی ہے‘قومی دفاع کے باب میں مثبت رویہ اور کرپٹ اپوزیشن مگر تابہ کے؟ عمران حکومت کو اعتبار حاصل نہیں‘جو دلدل میں گھرے‘ ایک معاشرے میں ہونا چاہیے۔اگر اقتدار میں ہیں، خطرہ لاحق نہیں ‘وجہ ان کے مخالفین ہیں۔ محترمہ مریم نواز شریف‘جن کا فرمان یہ تھا :کہ لندن تو کیا پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیداد نہیں۔ تازہ ارشاد یہ کہ نواز شریف کے کسی نمائندے نے جنرل سے ملاقات نہیں کی۔فوجی ترجمان نے واضح کر دیا کہ جناب زبیر عمر ایک نہیں دو بار ملے۔ تفصیلات میں البتہ اختلاف ہے۔ایک اطلاع یہ ہے کہ پہلے وہ لاہور پہنچے اور محترمہ سے بات کرنے کے بعد راولپنڈی تشریف لے گئے۔ نون لیگ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ایک ممتاز اخبار نویس نے تصدیق کی ہے۔92 نیوز کی سابق میزبان قابل اعتبار علینہ شگری نے بھی توثیق کی۔ دوسال میں بگڑے نظام کی عمران خان اصلاح نہیں کر سکے۔ اصلاح تو دور کی بات ہے‘ ابتدا بھی نہیں۔کرپشن کا خاتمہ ان کا پیمان ہے۔ اللہ جانے یہ کیسا احتساب ہے کہ مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر کیس کی ابتدا بھی نہ ہو سکی۔ نیب کی تحقیقات شروع ہوتے ہی ‘ وزیر اعظم نے خسرو بختیار اور ان کے بھائی کی برّیت کا اعلان کر دیا۔ بی آر ٹی پشاور ایسا کارنامہ ہے کہ شاید ہی کوئی دوسری مثال ہو۔23ماہ کی تاخیر سے منصوبہ مکمل ہوا اور ایک ماہ بعد بند کرنا پڑا۔ عالم یہ ہے کہ تکمیل سے دو سال پہلے ہی ایک سو بسیں لا کھڑی کیں۔چینی کمپنی نے راز فاش کر دیا کہ آئے دن آتشزدگی کا بھیدکیا ہے۔ ہر تین دن کے بعد کچھ دیر کیلئے‘ بس چلائی جاتی تو ایسا نہ ہوتا۔ امید تھی کہ پٹوار‘ پولیس‘ سول سروس اور ایف بی آر کی اصلاح ہو گی۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بہتر‘جیسا کہ پختون خواہ میں‘ بلدیاتی ادارے متحرک ۔پختون خواہ میں کچھ نہ کچھ کر دکھایا تھا؛ پشاور شہر کھدا پڑا تھا۔ راستوں پہ دھول اڑتی تھی‘ پھر بھی33کے مقابلے میں 65سیٹیں جیت لیں۔ کارکردگی اب بہتر ہونی چاہیے تھی مگر بگڑتی گئی۔ کابینہ میں دھڑے بن گئے‘ اس لئے کہ محمود خان کووہ کم از کم احترام بھی حاصل نہیں جو ایک لیڈر کو ہونا چاہیے۔ پرویز خٹک سے دھڑے بندی کی شکایت رہی تھی‘ کھڈے لائن لگا دیے گئے۔ بی آر ٹی کے باب میں ان سے پوچھ گچھ کی ضرورت کبھی محسوس نہ کی گئی۔ احتساب کا ہدف بنی تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی مگر نیب اور عدالتی اداروں میں موجود خامیوں سے فائدہ اٹھا کر‘ اکثر بچ نکلے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ گاہے‘ پس پردہ امدادبھی حاصل رہی۔ سول سروس کے گھوڑے پر ایک دن بھی سوار جم کر نہ بیٹھ سکا اور بسورتا ہوا پایا گیا۔رفتہ رفتہ کرپٹ تاجروں اور سرکاری افسروں کے لئے نیب کا شکنجہ ڈھیلا کر دیا گیا۔ کمزوری کا حکومت نے اعتراف کر لیا۔ بتدریج اس کی رٹ کمزور ہوتی گئی۔ ڈھنگ سے کاروبار حکومت چلانا اب اور بھی مشکل ہے ۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ ملک پر مافیاز اور کارٹل مسلط ہیں۔ جی ہاں‘ ہمیشہ سے مسلط ہیں۔ اسی لئے آپ کو اقتدار بخشا گیا ‘ مگر آپ نے کیا کیا؟۔اپنے گھر میں ایک کمزور باورچی اور اپنی گاڑی میں ایک ناقص ڈرائیور آپ برداشت نہیں کر سکتے‘ مگر عثمان بزدار کو آپ نے 12کروڑ کے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ کوئی ایک ہوش مند آدمی‘اس تقرر کا حامی نہیں‘ مگر آپ اس کی پشت پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے؟ کیا ’’امر ھم شوری بینھم‘‘ کا اس طرح اطلاق ہوتا ہے۔ کیا اس کا نام عدل اور جمہوریت ہے؟ نو برس مامون الرشید کوسِ لمن الملک بجاتے رہے کہ امام رضاؒ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ فلاں علاقے میں بغاوت برپا ہے؟ کیا تمہیں خبر ہے کہ فلاں فلاں حکام موقع پرست اور لالچی ہیں۔ مامون کی آنکھیں کھلیں اور کچھ سدھار آیا مگر نو برس تک ریاست کی کمزوری کے بعد کتنا سدھار ممکن ہوتا۔باقی تاریخ ہے۔ جناب شہباز شریف نے ایک سحر مجھے بتایا تھا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں ٹیکس وصولی کی شرح 16فیصد تھی ‘ بجائے خود جو کم ہے۔ اقتدار قائم رکھنے کے لئے زرداروں پہ وہ مہربان تھے۔ اب نو فیصد ہے۔پندرہ برس ہوتے ہیں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا: ایف بی آر والے کم از کم پانچ سو ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ایک ٹیکس چور سے دس ہزار روپے رشوت لی جائے تو خزانے کو کم از کم پچاس ہزار کا نقصان پہنچتا ہے۔ ٹیکس کے ایک وفاقی محتسب نے صدر زرداری کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی تھی۔ اجازت مانگی کہ باضابطہ تفتیش کے بعد آٹھ دس بڑے ٹیکس چوروں کو پکڑ لیا جائے۔ان کی پارٹی کے چند لوگ بھی ‘ظاہر ہے کہ اس میں شامل ہوں گے۔ وہ بدک گئے‘ بدکنا ہی تھا اور محترم میاں محمد نواز شریف نے یہ فرمایا تھا ’’میرے اثاثے اگر آمدن سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف؟‘‘ قانون کی عملداری کا حال یہ ہے کہ نیب کے دفتر پہ پتھر برسا کر ‘ محترمہ مریم نواز ٹھنڈے ٹھنڈے گھر لوٹ گئیں۔ اربوں‘ شاید کھربوں کی منی لانڈرنگ کے باوجود شہباز شریف‘ نواز شریف‘ مریم نواز اور ان کا پورا خاندان‘ زرداری صاحب اور ان کا پورا گھر انہ آزاد ہے۔اگر پولیس واقعی آزاد ہوتی۔عدالتی نظام اگر واقعی بروئے کار ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا؟ہاں مگر یہ بھی ممکن نہ تھا کہ شہزاد اکبر برطانیہ میں ایک پاکستانی پراپرٹی ڈیلر سے خفیہ ملاقات کرتے اور عدالتی کارروائی کے بعدوصول کئے جانے والے 38ارب روپے غائب ہو جاتے۔ غائب ہی ہو گئے نا بھائی کہ پہلے سے عائد کردہ جرمانے کی مد میں شامل کر دیا گیا۔بلیک میلر رہنما، ناصر درانی کو گھر بھیجنے میں کامیاب رہے؛ چنانچہ وہ زنجیر ہی ٹوٹ گئی‘جرائم پیشہ جس میں باندھے جا سکتے ۔نتیجہ یہ ہے کہ چھ سربراہ تبدیل کرنے کے باوجود پنجاب پولیس ڈھلوان میں اترتی جا رہی ہے۔ججوں کے انتخاب اور تربیت کا نظام اصلاح طلب ہے۔ 1049عدالتی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ پولیس بے دل ہو کر ناکارہ ہو چکی۔ پنجاب کا آئی جی ایک ایسا شخص ہے‘ جس کے خلاف‘ اس کے اپنے رفیق اعلانیہ گواہ ہیں۔ یہ سب کیا ہے‘ جناب وزیر اعظم۔ہر روز کم سن بچے درندگی کا شکار ہوتے ہیں آپ کو نیند کیسے آ جاتی ہے؟اپوزیشن سے تو کیا شکوہ کہ کشمیر کا نام تک نہیں لیتی۔ہزاروں بچے اور بچیاں جہاں اغوا کر لئے گئے۔ تیس لاکھ سے زیادہ کشمیری‘کشمیری نہیں پاکستانی گھروں میں مقید ہیں۔ مریض کے لئے دوا دارو اور بھوکے آدمی کے لئے آب و دانہ مشکل۔مگر خود آپ نے بھی کیا کیا؟ خود اپنی پارٹی کے ایما پر دو بار قومی اسمبلی کے سپیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ وفود دنیا بھر میں بھیجے جائیں۔ ان کے بقول آپ نے ارشاد کیا: فکر نہ کرو‘میں خود دیکھ لوں گا۔تنہا پولیس‘عدلیہ اور ایف بی آر کی اصلاح کیسے کریں گے؟ تنہا آپ کیسے ٹیکس وصول کریں گے؟ تن تنہا ساری دنیا میں کشمیر کا مقدمہ آپ کیسے لڑیں گے؟ اندھے حامیوں‘ موقع پرستوں اور سمندر پار سے مدد ملے تو ملے۔ کوئی انصاف پسند ۔مولانا فضل الرحمن، زرداری اور شریف خاندان کو اقتدار سونپنے کی حمایت نہ کرے گا۔ قومی دفاع کے باب میں جو یکسر بے نیاز ہیں۔ دو سہاروں پہ حکومت کھڑی ہے‘قومی دفاع کے باب میں مثبت رویہ اور کرپٹ اپوزیشن مگر تابہ کے؟