پاکستان ایک زررعی ملک ہے۔ یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پانچ دریا اور زرخیز میدان ہی ہماری دولت ہیں۔ ساٹھ سے ستر فیصد آبادی ابھی بھی دیہات میں مقیم ہے اور کسی نہ کسی طر زراعت سے وابستہ ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بھوک کے حوالے پاکستان دنیا کے ایک سو سولہ ممالک میں بانوے نمبر پر آتا ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق ملک کی تقریباً 13 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے کم از کم 37.6 فیصد سٹنٹ شدہ ہیں، یعنی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہ 6.7 فیصد اپنی پانچویں سالگرہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کا اندازہ ہے کہ مجموعی طور پرً 43 فیصد پاکستانی، لگ بھگ آدھی آبادی، غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ان میں سے 18 فیصد کو خوراک کے شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھیں تو یہی سمجھ آتی ہے کہ بھوک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ غذائی پیداوار کے حوالے سے دستیاب وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ ملک میں جمہوریت ہے لیکن سیاسی پارٹیاں بھوک کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتیں۔ پے درپے الیکشن ہورہے ہیں، منشور دیے جارہے ہیں، تقریریں ہورہی ہیں ، ووٹ لیے جارہے ہیں، لیکن بھوک کے خاتمے کے لیے کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آرہی۔ پاکستان کی آدھی آبادی جو بھوک کے عفریت کا سامنا کررہی ان کے پاس ووٹ کی طاقت ہے۔ اس طاقت کا نہ تو کسی سیاسی پارٹی کو احترام ہے اور نہ ہی ان کی بھوک کا احساس۔ پہلا سوال یہ ہے کہ بھوک کے شکار لوگ کون ہیں۔ کہیں ان کی بھوک مصنوعی تو نہیں ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کو دستیاب وسائل ان سے چھینلیے گئے ہوں؟ مسئلے کے حل کی طرف جانے کے لیے مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت دو غذائی اجناس کی پیداوار بھر پور طریقے سے ہورہی ہے : گندم اور چاول۔ چنا، دالیں اور خوردنی تیل درآمد کیے جارہے ہیں۔ پاکستان جیسے زرخیز خطے میں بھوک مصنوعی اور بناوٹی ہے۔ لیکن ان کی پیداواری اخراجات ہی اتنے بڑھادیے گئے ہیں کہ متوسط طبقہ اور غریب طبقے کے پاس قوت خرید ہی نہیں کہ وہ انہیں حاصل کرسکے۔ چھوٹا کسان تک غذائی قلت کا شکار ہوگیا ہے کہ نہ اسے نہری پانی میسر ہے اور نہ ہی زیرزمین پانی نکالنے کیلئے سستا ایندھن۔ یوں خوراک کے معاملے میں گھر گھر میں تنازعہ ہے۔ دستیاب خوراک میں بچے، عورتیں اور بوڑھے اپنا حصہ وصول نہیں کر پا رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھوک ، خاص طور پر پاکستان میں فطری نہیں ، مصنوعی ہے۔ مطلب، یہ ہے نہیں، پیدا کی گئی ہے۔ اس ناپسندیدہ عمل میں شامل کردار سامنے ہیں۔ تین سو تیس خاندان، جو مخصوص نظریہ ترقی کے بل بوتے پر پیداواری وسائل اور انڈسٹری پر قابض ہیں، اس بھوک کے دائرے کو نا صرف قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کو بڑھا وا دے رہے ہیں۔ ایک تو طلب و رسد والی بات ہے دوسرے سیاست کے تقاضے بھی۔ پاکستان کی آدھی آبادی جو بھوک اور ننگ کا شکار ہے، امیر طبقے کا ووٹ بنک ہے۔ بھوک اور غربت کے خاتمے کا نعرہ لگا کر ووٹ لیے جاتے ہیں۔ انہیں کے نام پر فنڈز اور قرضے لیے جاتے ہیں لیکن انہیں اتنا دیا جاتا ہے کہ سانس کی ڈوری اٹکی رہے۔ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے پہلے پانچ سالوں میں ہی اگر جسمانی طور پر نہیں تو ذہنی طور پر اپاہج ہوجائیں ۔ نہ ان میں اچھی ملازمتوں کی اہلیت ہواور نہ ہی وہ معاملات کو سمجھتے اور انہیں چیلنج کریں۔ ڈر اور خوف وہ ہتھیار ہیں جو معاشرے کے پسے اور پسماندہ طبقے کو قاعدے میں رکھنے اور اس کے ووٹ ہتھیانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پولیس ، چور، ڈاکو اور گھسا پٹا عدالتی نظام سب اس خوف کو قائم رکھنے اور بڑھاوا دینے کے استعمال ہوتا ہے۔ جمہوریت بنیادی طور پر ایک قدغن ہے جو امیر طبقے پر لگائی جاتی ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقات اس کی ہوس زر و اقتدار کا نشانہ نہ بن جائیں، لیکن ہمارے ہاں جو جمہوریت ہے اسے جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ تین سو تیس خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں۔ ان کے اندر جمہوریت کا نام ونشان تک نہیں۔ ان شاہ پرست پارٹیوں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ، ایجنڈا نہیں۔ مذہب کارڈ کم پڑجائے تو نسل پرستی اور لسانیت کی آگ بھی جلا لی جاتی ہے۔ ووٹ پیسے ، دھونس و دھاندلی اور پراپیگنڈہ کی بنیاد پر لیے جاتے ہیں۔ انتخابات وقت پر ہوتے ہیں تو وہی جن کا انہیں فائدہ ہے۔ یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے۔ مقامی حکومتیں آئینی تقاضا ہیں، لیکن کوئی توجہ نہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں یہ انتخابات ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن بے بس، عدالتیں خاموش۔ اپوزیشن پارٹی ، جو مقامی حکومتوں کی حامی رہی ہے اور جس نے خیبر پختونخواہ کو ایک مثالی نظام دیا ہے، اس کی طرف سے بھی خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔ بعد از اٹھارویں ترمیم اگر صوبے خود مختار ہوچکے ہیں اور وفاق ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا، عدالتیں اور الیکشن کمیشن تو موجود ہیں۔ وہ کیوں کچھ نہیں کرتے؟ سیاسی پارٹیاں اگر مقامی حکومتوں کے حق میں نہیں تو سول سوسائٹی کہاں مرگئی ہے؟ تعلیم اور صحت پر پیسہ جاتا تھا تو پسے ہوئے طبقات، مطلب پاکستان کی آدھی آبادی ، کا فائدہ ہوجاتا تھا۔ اب یہ دو شعبے بھی نجی شعبے کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ محصولات کا بوجھ بھی عام آدمی، یعنی جو غذائی قلت تک کا شکار، ہے اس پر ہے۔ سترہ فیصد جی ایس ٹی ضروریات زندگی پر ہے۔ لیکن ان محصولات کا مصرف نہ تو عام آدمی کے اختیار میں ہے اور نہ ہی یہ ان سے مخصوص۔ اصولی طور پر ایندھن اور غذائی اجناس پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے لیکن ایسا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر۔ محصولات کا دوسرا ذریعہ درآمدات ہیں۔ دالیں، خوردنی تیل، پٹرولیم مصنوعات سے حکومت پیسہ اینٹھتی ہے اور خمیازہ بھگتتے ہیں عوام۔ پاکستان کی آدھی آبادی کو اگر خوراک کی کمی کا سامنا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ بیمار ہے۔ حقیقتاً ایسا ہے بھی۔ جسمانی نشونما ٹھیک نہ ہو تو انسانی جسم بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ اگر بیماری کو اس کی جڑ سے نہ پکڑا جا ئے تو یہ اگلی نسلوں تک منتقل ہوجاتی ہے۔ بیماری کا علاج صحت مند خوراک ہے ، نہ کہ بڑے بڑے ہسپتال ، مہنگی دوائیں اور نا ہی ٹیکے۔