وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دو ریفرنڈم کروانے کا عندیہ دیا ہے۔ ایک ریفرنڈم میں کشمیری عوام پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے۔ ریفرنڈم وہ پاکستان کیساتھ یا آزاد ریاست کے طو رپر رہنے کا فیصلہ کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک نئی بات کہہ دی ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تنقید بھی ہو رہی ہے اور اُن کے بیان کو خلاف آئین قرار دیا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی بات پر کس حد تک قائم رہتے ہیں اور آگے کیلئے کیا سوچتے ہیں؟ آزاد کشمیر میں انتخابات بھی ہو چکے ہیں۔ آنیوالی حکومت کا موقف کیا ہے۔ اس کا فیصلہ آنیوالا وقت کرے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جنگ کرنی ہے یا امن؟ فیصلہ کشمیریوں کے حکم پر ہو گا۔ بلاول نے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر سخت تنقید کی۔ مسلم (ن) کے شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے تاریخی موقف سے ہٹ کر بات کی جس کی پوری قوم مذمت کرتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ہو گا۔ بات صرف آزاد کشمیر کی نہیں مقبوضہ کشمیر کی بھی ہے۔ وزیر اعظم کی بات یکطرفہ لگتی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں اس مسئلے کو عالمی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ عمران خان ریفرنڈم کرا دیتے ہیں، کیا بھارت بھی ایسا کرے گا؟ ابھی تک اس کا جواب نفی میں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ کشمیریوں کو اُن کا حق خود ارادیت ملنا چاہئے، شناخت بھی ملنی چاہئے اور اختیار بھی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آج سارا پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، کشمیر کے آزاد ہونے تک ہر فورم پر کشمیریوں کی جنگ لڑنا ہو گی ، جس طرح نازی پارٹی نے جرمنی پر قبضہ کیا ، اس طرح آر ایس ایس نے بھارت پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہمیںجنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا ہوگا ،دنیا کو بتانا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت آزاد کشمیر مودی حرکت کرے گا اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا، مودی اپنے تکبر میں اپنا آخری پتہ کھیل چکا ہے۔اس ضمن میں امریکا سے بھی بات کرنا ضروری ہے کہ اس کی ثالثی کہاں گئی ۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر کہا تھاکہ موجودہ حکمرانوں کیلئے کشمیر ٹیسٹ کیس ہے ۔ شیخ رشید جیسے وزراء اپنی تقریریں اس انداز میں کر رہے ہیں کہ ان میں خلوص کم اور بڑھک بازی زیادہ نظر آتی ہے ۔ وہ بار بار اس بات کو دہراتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ لیکن ایٹمی طاقت سے زیادہ پاکستان کو معاشی طاقت بننے کی ضرورت ہے اور پاکستان کے تمام طبقات کو اقتصادی لحاظ سے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ خصوصاً آزاد کشمیر میں اس طرح کے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ پاکستان کتنا مضبوط اور مستحکم ہے اور کشمیریوں کے اقتصادی ترقی میں اس کا کتنا ہاتھ ہے ۔ ہم پاکستان کی معاشی صورتحال اور عام آدمی کی حالت زار پر غور کرتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈر کس طرح دوسروں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کشمیر کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ، پوری قوم کی ہمدردیاں کشمیر کے ساتھ ہیں اور پوری قوم کو بھارت سے انتہائی نفرت ہے ۔ بھارت جس طرح کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے اور اس کی طرف سے پاک فوج کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں انتہائی قابلِ مذمت ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف نے را کے ایجنٹ حمد اللہ محب سے ملاقات کی ہے۔ جس پر پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے نوازشریف کی ملاقات کو ملک دشمنی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ لندن میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے قائد نے افغان مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب اور افغان وزیر مملکت سید سعادت نادری سے ملاقات کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات سفارتی آداب کے تحت کی گئی ہے۔ جبکہ وفاقی وزراء فواد چودھری اور شہباز گل نے کہا کہ پاکستان کا ہر دشمن نوازشریف کا ساتھی ہے۔ نوازشریف کا ماضی اس جیسی ملاقاتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت اور افغانستان کے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں اور مودی نے افغانستان کے ذریعے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات میں یہ ملاقات سخت قابل اعتراض ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے، لگتا ہے کہ امریکہ خود یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں بد امنی رہے اور حکومت اور طالبان ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے راہ فرار اختیار کی ہے۔ پاکستان کو افغانستان کے مسئلے پر ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہئے جس سے پاکستان افغانستان کے فساد سے محفوظ ہو سکے۔ افغانستان میں اقتدار کی جنگ ہو رہی ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے مطابق کوئی ملک افغانستان کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی وہ طالبان کو اچھا سمجھتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو افغانستان ایک مسترد ریاست ہے مگر ظلم یہ ہے کہ افغانستان کے سارے عذاب اہل پاکستان کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ اب بھی افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہے اور کچھ یورپی ممالک نے افغان مہاجرین میں دلچسپی لینا شروع کی ہے اور امریکہ کی طرف سے بھی دس کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان ہوا ہے۔ کرائے کے قاتل پوری دنیا میں موجود ہوتے ہیں مگر افغانستان میں یہ جنس وافر مقدار میں ملتی ہے۔ پہلے بھی امریکہ اور یورپ نے دولت کے بل بوتے پر طالبان کو استعمال کیا اور مدارس میں پڑھنے والے غریبوں کے بچوں کو استعمال کیا اور جب امریکہ کا کام ہو گیا تو اُس نے بچ جانے والے ’’مجاہدین‘‘ کو قتل کیا۔ یہ کھیل ختم ہونا چاہئے۔ کوئی پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔ اس لیے بچ کر رہنا ہی بہتر ہے۔