کراچی میں اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس کا لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کے استعمال نے خواتین اور کئی مرداساتذہ زخمی ہو گئے۔ سندھ پر گیارہ برس سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ صوبے کے سرکاری ملازمین ہوں یا پھر عوام، ان کی حالت جوں کی توں ہی ہے۔ حکومت وعدے کرکے سرکاری ملازمین کو ٹرخاتی رہی ہے پھر وعدے آنے پر انہیں سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔ ایسی ہی صورت کے بعد 2017 ء میں بھرتی ہونے آئی بی اے اساتذہ نے احتجاج کیا۔ مسائل حل کرنے کی بجائے قوم کے معماروں پر وحشیانہ تشدد کرکے انہیں حوالات میں بند کر دیا۔ خواتین اساتذہ پر تشدد کے بعد صوبائی حکومت کو صنف نازک کے حقوق یاد آئے نہ ہی وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری کو ٹوئیٹ کرکے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا خیال آیا۔ 2012 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہی اساتذہ سے مستقل کرنے کا وعدہ کیا تھا، ایک عرصہ تک سندھ حکومت نے انہیں مستقلی کی امید دلائے رکھی۔ بعد ازاں ٹال مٹول شروع کر دیا۔ اب تو مشیر اطلاعات سندھ نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ مستقل تقرری کے لئے اساتذہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مشتہر اسامیوں میں اپلائی کریں۔ پیپلز پارٹی تو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا عزم رکھتی ہے لیکن اس نے یکدم ہی 957 گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے کر دیئے ہیں۔ روزگار فراہمی کا نعرے لگانے والے جب لقمہ چھیننا شروع ہو جائیں تو پھر عوام نے سڑکوں پر تو آنا ہی ہے۔ چیئرمین پی پی بلاول زرداری سندھ حکومت کے اساتذہ دشمن فیصلے کا نوٹس لیں اور اساتذہ کے مسائل حل کرکے انہیں دلجمعی سے کام کرنے دیں۔