کراچی میں ایک سرکاری ریسٹ ہائوس کے ریستوران سے مضر صحت کھانا کھانے سے 5بچے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ سندھ میں مضر صحت کھانا کھانے کے باعث ہلاکتوں کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے 2015ء میں ایک معروف سویٹ شاپ سے برگر کھانے کے باعث 13سالہ کنزہ جاں بحق ہوئی تو گزشتہ برس نومبر میں کراچی کے ایک پرتعیش ہوٹل کا کھانا کھانے کے باعث دو بچے زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس وقت بھی حکومت نے اعلیٰ سطحی انکوائری اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ ریستوران کا مالک اس قدر بااثر تھا کہ بچوں کے باپ نے کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔ کہنے کو تو سندھ میں فوڈ اتھارٹی بھی موجود ہے مگر مضر صحت کھانوں کے باعث بڑھتی ہلاکتوں کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سندھ فوڈ اتھارٹی اپنی ذمہ داری نبھانے میں کلی طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ فوڈ اتھارٹی نے ایک بین الاقوامی فوڈ چین کے ریستوران کے سٹور سے برسوں سے زائد المیعاد گوشت برآمد کیا مگر اس ریستوران کے خلاف بھی خاطر خواہ کارروائی نہ ہو سکی۔ بعض حلقے مجرموں کے قانون سے بچ نکلنے کو اس قسم کے دلخراش واقعات کے بار بار رونما ہونے کی وجہ بتاتے ہیں۔ بہتر ہو گا سندھ حکومت فوڈ اتھارٹی کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو مناسب داموں معیاری اشیاء خوردنی کی فراہمی کے لئے قانون سازی بھی کرے تاکہ ناقص اور مضر صحت اشیاء خوردنی بنانے اور بیچنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔