کراچی میں نامعلوم افراد کی کارستانیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے،72سال بعد بھی ان نامعلوم افرادنے قائد اعظم محمدعلی جناح کے شہر اور اس کے باشندوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔کراچی میں قیام پاکستان کے تقریباً 6ماہ بعدپہلی بار یہ نامعلوم افراد حرکت میں آئے اور شہر کاامن اور بین المذاہب ہم آہنگی ٹھکانے لگا دی۔قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد اقلیتوں کو امن کی ضمانت دی تھی اور برملا یہ کہا تھاکہ جوسکھ اور ہندو پاکستان چھوڑ کر نہیں جائے گا، اس کی جان ومال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہو گی لیکن ان نامعلوم افراد نے قائد اعظم کی یقین دہانی کوقیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے پاکستان رہ جانے والے ہندوئوں اور سکھوں کے گھروں ، گوردواروں اور مندروں پر اچانک حملے شروع کردیئے اور انہیں جلایا بھی جانے لگا ۔ رتن بلائو اور رام باغ کے قرب و جوار میںسینکڑوںسکھ اور ہندو خاندان ایسے بھی تھے جنہوں نے بھارت نقل مکانی کا فیصلہ کر رکھا تھا لیکن ان کی نقل مکانی سے پہلے ہی ان نامعلوم افراد نے قیامت برپا کر دی ،ان پراسرار فسادات میں سکھوں اور ہندوئوں کے کئی مکانات لوٹ لئے گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ محمد ایوب کھوڑو ، علاقائی مجسٹریٹ رضا کے ہمراہ گورودواروں اور رام باغ سوامی نارائن مندر سمیت متعدد مندروں میں گئے اور اپنی نگرانی میں سکھوں اور ہندوئوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے اقدامات کئے ۔ان فسادات کی خبرجب قائد اعظم محمد علی جناح کو ملی تو انہیں ان بلووںپر بڑا رنج ہوا اور انہوں نے انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور بعض افسران کو بلا کر انہیں سخت سست کہا۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ اقلیتوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور اگر اہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکے تو یہ قیام پاکستان کی روح کے منافی ہوگا ۔ انہوں نے فوراً اسکندر مرزا کو طلب کیا جو اس وقت سیکریٹری دفاع تھے ،اوران سے ارشاد فرمایا کہ مجھے پانچ گھنٹے میں رپورٹ چاہئے کہ کراچی میں امن قائم ہوچکا ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے کسی اور کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنا پڑے گا اور پھر کمانڈر کراچی جنرل اکبر خان کو بھی طلب کرکے وہی الفاظ دہرائے جو انہوں نے اسکندر مرزا سے کہے تھے۔قائداعظم محمد علی جناح کی سرزنش رنگ لائی اور ان کی ڈیڈلائن سے دو گھنٹے قبل ہی کراچی میں امن قائم ہو گیا۔ کراچی کے اس پہلے آپریشن کلین اپ میں 11نامعلوم افراد ہلاک ہوئے اورایک زخمی ہوا ۔ سکھوں اور ہندوئوں نے بلوے ختم ہونے پر سکھ کا سانس لیا اور قائد اعظم کو دعائیں دیں۔ آج 72سال بعد قائد اعظم کا شہر پھر لہو لہو ہے، اس بار نامعلوم افراد کے ہاتھوں کوئی سکھ یا ہندو لقمہ اجل نہیں بن رہا بلکہ کلمہ گو کے ہاتھوں کلمہ گو ہی مارا جارہا ہے۔کراچی میں بدامنی کی تازہ ترین لہر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے شہر میں ماہ نومبر میں فائرنگ ، پر تشدد او ردیگر واقعات میں146 افراد جان کی بازی ہار گئے ، آئی جی سندھ اور متعلقہ اداروں کے افسران کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ، پولیس شہریوں کی جان و مال کونامعلوم افراد سے تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے، اب تو شہری گلی، محلے اور اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔کراچی دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔ڈیفنس میں نوجوان طالبہ دعا منگی کے اغوا ،سائیٹ میں معلم کے ہاتھوں پانچ سالہ طالبہ اور قائد آباد میں جواں سال معذور بچی سے نامعلوم افراد کے کھلواڑ کے بعد عدم تحفظ کا یہ تاثرشہریوں میں پختہ ہوتا جارہا ہے کہ نامعلوم افراد جب چاہیں ،جہاں چاہیں اور جو چاہیں کر گزریں قانون کی گرفت ان کی گردنوں تک نہیں پہنچ پائے گی ، یہ صورت حال ایک اجتماعی خوف کو جنم دے رہی ہے کہ شہر قائد میں کوئی بھی محفوظ نہیں بلکہ قانون کے رکھوالے آئی جی سندھ کا اپنا خاندان بھی اس لاقانونیت سے محفوظ نہیں رہا جس کا اعتراف وہ دو ماہ قبل خود ہی کیا تھا۔ کراچی کی سڑکوں ، بازاروں اور گلی محلوں اور گھروں میں گھس کرشہریوں کو دیدہ دلیری سے لوٹا، مارا ، اور اغوا کیا جارہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا۔کراچی میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں امن کی فضا تلپٹ کئے جانے کے بعد مجھے عدالت عظمیٰ یاد آگئی کہ جس نے ایسی ہی لاقانونیت سے گلوخلاصی اورایسی ہی صورت حال کے تدارک کے لیے جولائی 2016 ء میں کراچی کے حساس مقامات پر کلوز سرکٹ (سی سی ٹی وی) کیمروں کا نیٹ ورک قائم کرنے اور سیف سٹی منصوبہ شروع کرنے کی ہدایت دی تھی ۔سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی سیف سٹی پائلٹ پروجیکٹ کو شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔ ابتداء میں ہمارے فعال وزیراعلیٰ سندھ نے بھی کافی گرم جوشی دکھائی اور اس حوالے سے اجلاس پر اجلاس بلوائے گئے مگر یہ اجلاس نشستند، گفتند،برخاستندکے مصداق بے نتیجہ ثابت ہوئے اور پھرتیوں کا یہ عالم ہے کہ حکومت سندھ اب تک کیمرے بھی نصب نہیں کراسکی۔ نتیجتاً آج بھی نامعلوم افراد کسی شہری کو بھی لوٹ کر، کسی کو مار کر اور کسی کو سب کے سامنے اغواء کرکے چشم زدن میںغائب ہوجاتے ہیں کہ ان کا سراغ تک نہیں ملتا۔یاد دلاتا چلوں کہ 4 سال پہلے عدالتی حکم کے بعد سندھ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی کے 2 ہزار مقامات پر 10 ہزار حساس کیمرے نصب کیے جائیں گے تاکہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو شناخت اور گرفتار کیا جاسکے۔9 اگست 2016 ء کو آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے کراچی کے 3 زونوں میں 2 ہزار مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جس کے مطابق ویسٹ زون میں 500، ایسٹ زون میں 500 اور وی آئی پی سمجھے جانے والے ساؤتھ زون میں1000 مقامات شامل تھے۔ ،اس کے بعد سندھ حکومت نے پھر اجلاس پر اجلاس بلوائے اور فزیبیلٹی رپورٹ تیار کرنے کے لیے نجی شعبے کی خدمات بھی لی گئیں۔’’ کراچی سیف سٹی منصوبہ‘‘پر 10 ارب روپے لاگت آئے گی اور کیمروں کی تعداد کو 30 ہزار تک بڑھایا جائے گا۔ سندھ کابینہ کی جانب سے کراچی سیف سٹی منصوبے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے ،اب نہ جانے اس منصوبے کو سندھ اسمبلی میں کب پیش کیا جائے گا،کب ان حساس کیمروں کی تنصیب ہوگی اور کب شہر قائد کے باشندے ان نامعلوم افراد سے چھٹکارا پاسکیںگے۔