اس ملک میں سلامتی اور سکیورٹی کے نام پر کیا کچھ نہیں ہوتا۔ آج مگر میرا یہ موضوع نہیں ہے۔ میں کراچی کے مسئلے پر ٹی وی پر ایک گفتگو سن رہا تھا۔ درمیان میں چونک پڑا جب اس حوالے سے بھی سکیورٹی کے مسئلے زیر غور آئے۔براہ راست نہ سہی۔ اس انداز ہی سے سہی کہ کراچی میں ایک مرکزیت قائم نہیں ہو پاتی۔یہاں تو کوئی 22آزاد و خود مختار ادارے ہیں جو الگ الگ جام کرتے ہیں۔ اس میں ایسے ادارے بھی ہیں جن کا براہ راست سکیورٹی سے تعلق نہیں‘ مگر وہ کسی کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت چلتے ہیں مثال کے طور پر کے ڈی اے سکیم ون کا نام لیا گیا اور بتایا گیا کہ اس کی ایکسٹینشن کراچی ایک کنٹونمنٹ کے کنٹرول میں ہے۔ بھائی یہاں کیا ضرورت ہے۔ مطالبہ تھا کہ یہ سب ادارے ایک مرکز کے تحت آ جائیں اور یہ مرکز کراچی میٹروپولیٹن کا اپوزیشن کے تحت ہو۔ مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب جنرل مشرف ملک میں ایک نیا شہری نظام لانا چاہتے تھے۔ہمار ے تینوںفوجی آمروں نے ایسا کیا۔ ایوب خاں بنیادی جمہورتیں لے کر آئے۔ ضیاء الحق نے بلدیاتی نظام رائج کیا اور پرویز مشرف کے ایک دست راست جنرل تنویر نقوی شہر شہر جا کر معلوم کرتے تھے کہ کیا بندوبست رائج کیا جائے۔ ان کی شہرت فوج میں تو اچھی تھی۔ شاید اس لئے کہ وہ کوئی تھیوری پیش کرنے میں بہت سلیقہ مند گنے جاتے تھے‘ مگر مجھے جانے کیوں ان سے کد پیدا ہو گئی تھی اور میں کہا کرتا تھا‘بلکہ لکھ بھی ڈالا تھا کہ جنرل نقوی کے ہوتے مشرف کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔ شاید بیورو کریسی کا جو نیا اور اچھوتا نظام وضع کیا جا رہا تھا‘ وہ مجھے پسند نہیں آ رہا تھا۔ تاہم یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ اس زمانے میں نئے نظام پر گفتگو بھی خوب ہوئی اور اس پر غور بھی ہر سطح پر ہوا۔ ظاہر ہے غور و فکر کرنے والوں کا اپنا مائنڈ سیٹ یا اپنے ذہنی تقاضے تھے۔ مثال کے طور پر کراچی کے ایک بڑے علاقے کو میٹرو پولیٹن کارپوریشن سے نکال دیا گیا تھا۔ دلیل چپکے سے دی جاتی تھی کہ کراچی ایک ساحلی شہر ہے یہاں سکیورٹی کے بڑے حساس معاملات ہیں۔ ان کا خیال رکھنا پڑے گا۔ اس خطرے میں یہ بات بھی شامل کر لی جاتی کہ سارا شہر تو ایم کیو ایم کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے تو دشمن کو نفوذکرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کا ایک بڑا حصہ کارپوریشن کے دائرہ اختیار سے نکل جانا اور اسے سکیورٹی کی ضرورت قرار دیا جاتا۔ آج یہ بات اس طرح سامنے آئی ہے کہ اس طرح سے سارے پوش علاقوں کا ٹیکس تو کسی اور کو جاتا ہے۔ شہری حکومت کے ہاتھ پلے تو بس غریب غربا کی بستیاں رہ جاتی ہیں۔ خیر ایسا بھی نہیں ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ یہاں سے جو بحث شروع ہوتی ہے تو اس کا سرا بہت دور تک جاتا ہے۔ آج یہ بات بھی سامنے آئی کہ سپریم کورٹ یہ فیصلے دے چکا ہے کہ سول معاملات میں ان علاقوں کو بھی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل کیا جائے۔ اس کے جواب میں یہ لوگ اپیل میں گئے۔2015ء میں سپریم کورٹ نے دوبارہ فیصلہ دے دیا کہ یہ سب چھائونیوں کے رہائشی علاقے جن میں زیادہ تر سویلین رہتے ہیں۔کارپوریشن کا حصہ بنا دیے جائیں اتنے سال ہو گئے کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ اسے ڈی نوٹیفائی کیا جائے۔ اس پر کسی نے تبصرہ کیا کہ اس وقت وفاقی حکومت اور عسکری مقتدرہ ایک ہی صفحے پر ہیں اور سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں۔کیوں نا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت بیشتر کام میں سول انتظامیہ عسکری اداروں کی مدد لے رہی ہے۔ نالے صاف کرنے سے لے کر کچرا اٹھانے تک اور شہر میں دہشت گردی اور بھتہ خوری کے خاتمے سے لے کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے تک ان کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ میں نے کراچی کو دہشت گردی کے عروج میں دیکھا ہے اور معاملے کی حساسیت سے واقف ہوں‘ مگر محض کسی خاص طرح کی بیورو کریسی کو اختیارات دینے کے شوق میں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ وضاحت کر دوں‘ خاص طرح کی بیورو کریسی سے مراد مثال کے طور پر کنٹونمنٹ بورڈ کے افسر ہیں اسے سکیورٹی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔سلیقے سے کوئی اچھا بندوبست بنایا جا سکتا ہے۔ کراچی کے مسائل کا حل بہت سادہ بھی نہیں ہے۔ پھر ایک مثال دیتا ہوں۔ جنرل نقوی کے زمانے میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ کراچی کا میئر براہ راست منتخب ہو۔ اس نعرے میں بڑی کشش تھی مگر ضروری تھا کہ اس کے اندر چھپے مفادا ت ا ور مسائل کو واضح کر دیا جائے۔ ایک محفل میں پوچھا کہ حضور ایسا کیوں چاہتے ہیں۔جواب آیا اس وقت جوڑ توڑ کر کے بااثر لوگ منتخب ہو جاتے ہیں‘ براہ راست انتخابات میں غریب آدمی بھی آ سکتا ہے۔ پوچھا گیا‘ وہ کیسے؟ان دنوں کراچی میں قومی اسمبلی کی 13نشستیں تھیں۔عرض کیا کہ ایک غریب آدمی ایک ایم این اے کی نشست پر انتخاب نہیں لڑ سکتا‘ ایسے میں 13ایم این ایز سے بننے والی نشست تک اس کا گزر کیسے ہو گا۔پھر پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ بالواسطہ انتخاب میں بااثر افراد بے ایمانی کر جاتے ہیں۔ عرض کیا پھر تو شاید آپ ملک پر صدارتی نظام کے قائل ہوں گے اور پارلیمانی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہوں گے۔ مطلب یہ کہ کوئی نظام وضع کرنا آسان نہیں ہے۔ جرمنی‘ فرانس اور خود امریکہ میں وہ نظام نہیں جو جمہوریت کی ماں برطانیہ میں ہے۔ یہ ملک اور علاقے کے اپنے اپنے تقاضے ہیں۔کراچی ایک خصوصی بندوبست کا تقاضا کرتا ہے۔ کراچی کو پہلی بار جب صرف تین ضلعوں میں بانٹا گیا تھا تو کراچی والوں کو پسند نہیں آیا تھا‘ اب ماشاء اللہ 7بنا دیے گئے ہیں۔یہ محض تقسیم کا مسئلہ نہیں بلکہ اختیارات کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ جب شہر 18ٹائون میں تقسیم کیا گیا تو مرکزیت میٹروپولیٹن کارپوریشن کو تھی‘ اب کیا ہے‘ خدا ہی جانتا ہے۔ کراچی اور سندھ کے مسائل حل کرنے کے لئے ہم نے ایک عرصے سے مصنوعی بندوبست اختیار کر رکھا ہے۔ یہ جو سیدھی سادی جمہوریت کا سہارا لیا ہے۔ یہ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت کا مطلب دلّی پر برہمن راج ہے۔ اسی نے پاکستان کے تصور کو جنم لیا۔لوگ جمہوریت جمہوریت چیختے رہے‘ مگر ہمارے قائدین نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت ایسی کہ عام آدمی کو برابر کا انصاف ملے۔اس وقت کراچی میں انصاف نہیں مل رہا۔ کیا ہم مل بیٹھ کر کوئی راستہ تلاش نہیں کر سکتے۔