کراچی شہر کے گلی کوچوں‘ چوکوں‘ چوراہوں اور شاہراہوں پر تعفن بھرے کوڑے اور گندگی کے ڈھیر۔ اس گندی اور بدبودار سیاست کا علامتی مظہر ہیں جس نے کراچی کو کچراچی اور کوڑستان میں بدل ڈالا ہے۔ یوں تو دنیا کے ہر بڑے شہر میں کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے 2017ء میں ایک رپورٹ چھاپی کہ دنیا کے تمام بڑے میٹرو پولیٹن اور صنعتی شہروں میں 2025ء تک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ایک خوفناک مسئلہ بن جائیں گے۔ نیو یارک اور بمبئی بھی ان کوڑے کے مسائل سے دوچار ہیں۔ لیکن گندگی‘ کوڑے کے ہاتھوں جو حال کراچی کا ہوا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس وقت کراچی ایک المیے سے دوچار ہے ویسے یہ شہر ناپرساں کب کسی المیے سے دوچار نہیں رہا۔ کم از کم میں نے تو اپنے ہوش کے زمانے سے ہی کراچی کو ایک شہر آشوب کی صورت میں دیکھا اور جانا ہے۔ نامعلوم افراد۔ اندھی گولیاں۔ بوری بند لاشیں ‘ قتل و غارت‘ بھتہ خوری‘ جگا گیری ‘ غنڈہ گردی اور اس فضا میں ایک مسلسل عدم تحفظ ‘ خوف اور ممکنہ موت کے خطرات میں زندگی بسر کرتے ہوئے کراچی والے!برسوں اس شہر کو ایم کیو ایم نے غارت کئے رکھا۔ سیاستدان کے روپ میں ایک مافیا اس شہر پر مسلط رہا۔ جس کی جنبش ابرو سے اس شہر کا کاروبار چلتایابند ہوتا۔ یہ مافیا ہی فیصلہ کرتا کہ آج دیہاڑی داروں کو دھندا ملے گا یا پھر مندا۔ ان کے چولہوں کی آگ ٹھنڈی رکھے گا اور بھوک کا الائو بھڑکائے گا۔ یہ مافیا اور پریشر گروپ بھتے سے انکار کرنے پر سینکڑوں مزدوروں کے وجود سے بھری ہوئی بلدیہ ٹائون فیکٹری کو آگ لگا کر‘ شہر پر اپنی ہولناک گرفت کا اعلان کرتا۔ اب اس قدر غارت گری کے بعد وقت اپنا پیرہن بدل چکا! جو کل کے فرعون تھے شہر ان کی گرفت سے نکل چکا لیکن اس بدقسمت شہر کا المیہ کم نہ ہو سکا۔ قتل و غارت بھتہ خوری اور نامعلوم افراد کی اندھی گولیوں سے نکلا تو گند، کوڑے کرکٹ تعفن اور بدبو کے ناقابل برداشت کریہہ منظروں میں گھر گیا۔ کبھی کھانا کھاتے ہوئے سکرین پر کراچی کی کچرا کعڈیوں کی خبریں باتصاویر آنے لگیں تو باخدا سکرین پر یہ کریہہ منظر دیکھ کر انسان کھانا نہیں کھا سکتا۔ کجا کہ لوگ ان بدبودار بھبھکوں سے اٹے کوڑا ڈھیروں پر رہتے ‘ آتے جاتے ‘ سانس لیتے‘ زندگی بسر کرتے ہیں۔ بارشیں ہوں تو یہی کوڑا ڈرینج نالوں میں پھنستا ہے پانی کا اخراج روکتا اور شہر کو مزید خوفناک صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔ بارش کا پانی چونکہ نالوں کے ذریعے ڈرین نہیں ہوتا تو گلیوں اور سڑکوں میں جمع ہوتا، گھروں کے آنگنوں ‘ باورچی خانوں‘ بیٹھکوں میں گھس جاتا ہے۔ اس پانی کے ساتھ جگہ جگہ لگی کوڑے کی ڈھیریاں بھی شامل ہو جاتی ہیں اور پھر اس شہر کا وہی حشر ہوتا ہے جو میں نے اور آپ نے پچھلے چند دنوں میں دیکھا چھیالیس لوگ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے‘ ہزاروں بچے گٹروں اور دیگر وبائی امراض کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ کوڑا ملے بارش کے پانی نے غریبوں کے گھروں میں جو قیامت ڈھائی اس کے اثرات وہی جانتے ہیں۔ کراچی اس وقت دنیا کا گندہ ترین شہر ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ کار ‘ سیاستدان‘ صنعت کار‘ شوبزانڈسٹری کے بڑے نام‘ میڈیا ہائوسز کے ہیڈ کوارٹرز‘ نامور میڈیا پرسنز‘ صحافی ‘ادیب ‘شاعر رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی یہاں گیارہ سال سے حکومت کر رہی ہے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سے لے کر شہر میں صفائی ستھرائی اور امن و امان سے متعلقہ تمام اداروں کی کرتا دھرتا ہے۔ ایم کیو ایم برسوں اس شہر کی قسمت کی مالک رہی۔ لیکن اس وقت کراچی کو کچراچی اور کوڑستان بنانے میں انہی جماعتوں کا ہاتھ ہے، یہ آج بھی ایک دوسرے پر سیاسی بیانات اور الزامات کی صورت گند اچھال رہے ہیں۔ کراچی کے میئر تو آج بھی ایم کیو ایم سے ہیں لیکن شاید ہی دنیا میں کسی شہر کا ایسا بے حس اور بے حس و حرکت قسم کا میئر ہو۔ اس وقت جب شہر میں گند کے ڈھیر سے بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ یہ ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ ایک طرف مصطفی کمال اور وسیم اختر ہیں لفظوں کی جنگ جاری ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں۔ پیپلز پارٹی نے تو یہاں تک الزام لگایا کہ ایم کیو ایم نے سندھ انتظامیہ کو ناکام کرنے کے لئے نالوں کے ڈرینج پائپوں کو تکیوں اور گدوں سے بلاک کیا تاکہ شہر ڈوب جانے اور لوگ سندھ حکومت کو گالیاں دیں۔ پی ٹی آئی کے علی زیدی نے عید سے قبل شہر کو صاف کرنے کا بھاری پتھر اٹھانے کا اعلان کیا۔ جس کا خیر مقدم ہر صاحب شعور نے کیا۔ سوائے پیپلز پارٹی کے، جو 11برس سے سندھ پر حکمران ہے۔ کراچی شہر کے گلی کوچوں ‘ چوکوں‘ چوراہوں اور شاہراہوں پر تعفن سے بھرے کوڑے کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر اس گندی اوربدبودار سیاست کا علامتی مظہر ہیں جس نے کئی دہائیوں نے اس شہر ناپرساں کو آکٹوپس کی طرح جکڑ رکھا ہے نامعلوم افراد کی غارت گریوں اور بھتہ خوری کی ہولناکیوں سے گزرنا ہوا کراچی بالآخر کچراچی میں بدل چکا ہے۔ جہاں جگہ جگہ کچرا کنڈیوں کے ڈھیر اس شہر کے ساتھ بیتنے والی ناانصافیوں کی کہانی سنا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس شہر کو کھاتے رہے لیکن اس کے ساتھ سلوک لاوارثوں والا ہی کیا۔ تاریخ کی بدترین سیاست اور تفعن زدہ سیاسی سازشوں کا شکار ہونے والا کراچی اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہاں تعفن گلی محلوں‘ چوکوں چوراہوں میں پڑے ہوئے کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھ رہا ہے کہ یہاں کی بدبودار سیاسی کچراکنڈیوں سے!