کون نہیں جانتا کہ طویل عرصے سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ فقدان معقول اور ایمان دار لیڈرشپ کا رہا ہے۔ چند برس پہلے تک بچے بچے کی زبان پر یہی بات تھی کہ کوئی ایسا مضبوط حکمران آئے جو کرپٹ لوگوں کو الٹا لٹکا دے۔ ملک اور قوم کی لوٹی دولت ان کا پیٹ پھاڑ کے برآمد کر لے۔ گزشتہ دنوں ان سب ’فنکاروں‘ کے ایک بھیدی سیاست دان کا انٹرویو سنا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ ملک کا لوٹا ہوا مال کیسے واپس آ سکتا ہے؟ انھوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ یہ کسی صورت احتساب نہیں ہونے دیں گے، یہ ایسا کرنے والے کی مٹی پلید کر کے رکھ دیں گے۔ انھیں محض لولی لنگڑی جمہوریت درکار ہے، جبکہ احتساب کے لیے کوئی بہت مضبوط اور سر پھرا آدمی چاہیے ، جو اِن سب کو پکڑ کے جیل میں ڈالے اور ان سے اثاثوں کے مطابق جبراً چیک سائن کروائے ۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی صورت ہمیں ملک سدھارنے کا ایک موقع ملا تھا۔ ایسا لیڈر کہ دولت، شہرت، ہوس، ظاہری ٹِیپ ٹاپ جس کا مسئلہ ہی نہیں۔ جو دنیا بھر کے پھنے خاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر سکتا ہے۔ جس نے پوری دنیا میں کشمیر اور اسلامو فوبیا کے مسئلے کو اٹھایا، جس کا Absolutely Not ابھی تک سپر پاور کے حلق میں اٹکا ہوا ہے۔ جس نے کرتار پور راہداری کھول کے پوری دنیا کے سکھوں کے دل جیت لیے۔ جس نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کی کوششیں کیں۔ ریاستِ مدینہ کی بات کی، تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ شجر کاری کی مہم چلائی، غریبوں مسکینوں کے لیے مسافر خانے قائم کیے۔ صحت کارڈ گھر گھر پہنچایا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو عزت دی۔ نوجوانوں کے لیے آسان قرضوں کا بندوبست کیا۔ بڑے بڑے مگرمچھوں پہ ہاتھ ڈالا۔ بِکا نہیں، جھکا نہیں، ہار نہیں مانی۔ بیرونی دوروں پہ پیسہ نہیں لٹایا، باہر جائیدادیں نہیں خریدیں۔ لیکن ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ عیار سیاست دانوں، گھاگ مشیروں نے اس کو ہر فورم پہ بدنام کرنے کی کوشش کی۔ ایک سیاسی پارٹی (جس کا وتیرہ ہے کہ جو بھی مخالفت یا مقابلے پہ آئے، اسے خرید لو یا بے توقیر کر دو،اس کام کے لیے انھوں نے کچھ ’نمک حلال‘ قلم کار اور مشیر مستقل جیب میں رکھے ہوتے ہیں) نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کے لیے ریحام خانیں اور گُلا لیاں تیار کیں۔ اس کی گھریلو زندگی پہ کیچڑ اچھالا۔ بعض نے ’سلیکٹڈ ‘ اور ’لاڈلا‘ جیسے القاب عطا کیے۔ کرپشن اور دھاندلی کے الزام لگائے۔ اُس نے بدعنوانیوں کی بنا پر اپنے ہی لوگ پارٹی بدر کیے تو ان کو ساتھ ملانے کی کوششیں کیں۔ اتحادیوں کو توڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔غرض یہ کہ ایک دن سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ جب کوئی الزام ثابت نہ کر سکے تو مہنگائی کے مامے چاچے بن گئے۔ وہ مہنگائی جس پہ بھٹو قابو نہ پا سکا، ضیا، نواز، مشرف، زرداری کا بس نہ چلا۔ اُس پہ چیخنے والوں نے ابھی تک مہنگائی کم کرنے کا کوئی فارمولا قوم کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اب تو ویسے بھی یہ مہنگائی پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ یہ ان دنوں جو آپ کے چاروں طرف طوفانِ بد تمیزی برپا ہے، پرانے اور کرپٹ سیاسی مافیا کے پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لیے، ڈھول بجانے کی ذمہ داری اب نئی سیاسی پنیری کو سونپ دی گئی ہے، جن کو بدتمیزی کے علاوہ کوئی سبق پڑھایا ہی نہیں گیا۔ مفادات کی گیم میں کل کے گھسیٹے، آج کے چہیتے بنے بیٹھے ہیں۔ پچھلے دنوں شہباز شریف کی دعوت پہ اکٹھے ہوئے تو حکیم جی نے ارشاد فرمایا: ان کی فن کاری دیکھیے کہ کھانے پہ ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ حکیم جی یہ بھی پوچھتے ہیں کہ یہ جو مخلوق اسلام آباد کا شکار کرنے اور وزیرِ اعظم اور سپیکر کو سالم نگلنے نکلی ہے، ان سے دریافت کیا جائے کہ ان کی ایک صوبے میں طویل عرصے سے ذاتی اور جذباتی حکومت ہے۔ کیا وہاں انھوں نے صفائی، صاف پانی، انصاف، مہنگائی، تعلیم، صحت اور اپنے ہی لیڈر کے منشور کے مطابق غربا کو روٹی، کپڑا، مکان فراہم کر دیا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اس گرما گرمی کے پیچھے نہ صرف پچھلی دولت بچانے اور مزید کمانے کی لا مختتم ہوس کار فرما ہے بلکہ شر پسندوں اور پاکستان کو غیر مستحکم اور غلام دیکھنے کی تمنا رکھنے والے عناصر کی تھپکی ہے۔ یہ جلسوں میں نعرے لگاتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری ایک نظریے کا نام ہے، حالانکہ اندر کھاتے سب جانتے ہیں کہ یہ دونوں کسی نظریے کا نہیں ذریعے کا نام ہیں۔ دونوں کا کمال دیکھیے ایک صاحب جن فلیٹوں کی ملکیت سے انکاری ہیں، سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کے انھی میں ’بیماری‘ کے دن گزارتے ہیں۔ دوسرے نے ’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘ کی آڑ میں، اسے اپنے ہی گھر سے نکال دیا ہے۔ دونوں کا یہ مشترکہ عندیہ ہے کہ: اس قوم کی لُٹیا کو چلو مل کے ڈبوتے ہیں تو بھی سیاہ ست دان ہے ، مَیں بھی سیاہ ست دان سچ پوچھیں ان کے مارچ، دھرنے، جلوس، تقریریں دیکھ کے مجھے تو وہننھی سی بچی یاد آجاتی ہے ، جو ایک دن شرارت کے موڈ میں میرے پاس آکر کہنے لگی: چلیں ایک گیم کھیلتے ہیں! ہم نے ہامی بھری تو بولی: دائیں دیکھو! ہم نے فوری حکم کی تعمیل کی۔ پھر بولی: بائیں دیکھو! ہم نے بائیں بھی دیکھ ڈالا لیکن اس کی تسلی نہیں ہوئی پھر گویا ہوئی: اوپر دیکھو! ہم یہ بھی کر گزرے، پھر حکم ہوا اب نیچے دیکھو! نیچے دھیان گیا تو ہنس کے بولی: بُدھو بنایا…