عالمی ادارہ صحت کے مطابق کرونا پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کر دینے والا ایک وائرس ہے۔ یہ ہلکے پھلکے کھانسی زکام سے شروع ہوکے انتہائی سرعت سے موت کے منھ میں دھکیل دینے والا مرض ہے۔ گویا یہ کھانسی سے پھانسی تک کا تیز ترین سفر ہے، جس سے اب تک دنیا میں لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں۔اٹلی جو کبھی ایک پُر رونق زندگی کی علامت ہوا کرتا تھا، دنیا بھر سے لوگ وہاں تفریح اور روزگار کے لیے کشاں کشاں چلے آتے تھے، وہاں صرف ایک دن میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے چھے سو ہے۔ وہاں علاج معالجہ کی مناسب سہولتیں فراہم کرنا تو رہا ایک طرف، ہسپتالوں اور گھروں سے لاشیں اٹھانا ، انھیں ٹھکانے لگانا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت عالمی صورتِ حال تو یہ ہے کہ تمام تر آگاہی، وارننگ، شور و غوغا کے باوجود 154 ملکوں میںکرونا وائرس پھیل چکا ہے۔بڑی بڑی سلطنتیں اس موذی کی زد میں آ چکی ہیں۔ بڑے سے بڑے شہر لاک ڈاؤن ہیں۔ معیشت، معاشرت ٹھپ ہے لیکن شرم ناک بات یہ ہے کہ اس قیامت کی گھڑی میں جب تمام ممالک کے لوگ اپنی حکومتوں کے ساتھ دامے، درمے، قدمے،سخنے،تعاون کے لیے کمر بستہ ہیں ایسے میں سالہا سال جعلی ترقی کے نعرے لگانے والے، جعلی ضمانتوں پر رہا ہونے اور جعلی علاج کے بہانے ملک سے بھاگ جانے والوں نے پہلے تو ارشاد فرمایا کہ یہ سب خوف و ہراس جعلی ہے۔ یہ ڈراما عمران خان اور جنرل باجوہ نے صرف امریکا سے امداد حاصل کرنے کی خاطر رچایا ہے۔ اب جب دنیا بھر سے روزافزوں اموات کی ناقابلِ تردید خبریں آنے لگیں توقوم کے انہی عادی ’خادموں‘ نے دیارِ غیر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے خریدے گئے لگژری فلیٹس میں بیٹھ کر یہ نادر بیان جا ری فرمایاہے کہ ہمارا دل پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ ایک بار پھر اکبر الہٰ آبادی شدت سے یاد آ رہے ہیں، جو اس طرح کی ’دور اندیشی‘ پر فرمایاکرتے تھے: چھوڑ کر مسجدیں جا بیٹھے ہیں مے خانوں میں واہ کیا جوشِ ترقی ہے مسلمانوں میں کیا لطیفہ ہے کہ جو دل اپنی ضرورت کے لیے نہیں دھڑکتا، جو گزشتہ چونتیس برس تک محض حسن، حسین، اور مریم کی کفالت کے لیے حرکت میں آتا رہا اور جس کے علاج کے بہانے حضرت کئی ماہ سے لندن یاترا پہ ہیں، وہ بے دھڑک دل اچانک عوام کے لیے کیسے دھڑک پڑا؟ ویسے بھی یہ وقت تو ملک ملک میں بھرے اکاؤنٹوں کے دھڑکنے کا تھا، اسی بے چاری عوام کو دو چار ہزار وینٹی لیٹرز، ادویات اور راشن عطیہ کرنے کا تھا، جن محلات میں اب الوؤں نے بھی بولنا چھوڑ دیا ہے، ان کو کورنٹین ہاؤسز کے لیے وقف کر کے اللہ کے ہاں معافی ، تلافی کی بات چلانے کا تھا۔ دوسری جانب ان حکمرانوں کی تربیت یافتہ متعفن ذہنیت والی ذخیرہ اندوز اشرافیہ کو اس مصیبت کی گھڑی میں بھی بزنس کی سوجھی ہوئی ہے۔ کہیں دوائیں سٹاک کی جا رہی ہیں، کہیں ماسک مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں، اور تو اور یہ مشکل ترین نام والا سینی ٹائزر پلک جھپکتے میں پچاس روپے سے چھلانگ لگا کے پانچ سو کی حد کراس کر چکا ہے، سینی ٹائزر نہ ہوا، حسین نواز ہو گیا!! ایسے میں بعض ثقہ لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ عام آدمی کو خوشی کے منھ زبانی مواقع سے بھی روک دیا جائے! پوری دنیا کے ڈاکٹر، حکیم، وید، سنیاسی کہہ رہے ہیں کہ اس بیماری سے بچنے کا واحد طریقہ قوتِ مدافعت ہے۔ حسِ مزاح سے عاری لوگوں سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے لوگوں سے زندہ رہنے کا یہ سستا ترین امیون سسٹم مت چھینیں۔ ان کے لیے یہی ماسک ہے، یہی سینی ٹائزر ہے اوریہی وینٹی لیٹر ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ یہ بیماری کا مذاق نہیں اڑا رہے، دہلا دینے والی خبروں کی شدت کم کرنے کے لیے اپنے گرد ایک خوش گوار حصار تعمیر کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی وٹس ایپ یا فیس بک پر آپ کو مرنے مارنے کی خبروں یا مکروہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے سیاسی ایجنڈوں کی بجائے اس طرح کے پیغام بھیجتا ہے کہ : ٭ مجھے ماسک پہن کے ملنے آنا نارکلی! عشق اپنی جگہ، کرونا اپنی جگہ!! ٭ آج زوجہ محترمہ نے مشورہ دیاہے کہ اگر آپ نے بار بار ہاتھ دھونے ہی ہیں تو اس کے ساتھ گھر کا ایک آدھ برتن بھی دھوتے آنا!!٭ ہماری صفائی والی نے فون پر بتایا ہے کہ وہ اپنے گھر پر ہی رہ کر آن لائن کام کرے گی، یعنی فون پر ہی بتائے گی کہ کیا کیا کیسے صاف کرنا ہے۔٭ بیٹے نے ماں سے پوچھا کہ سوشل ڈسٹنس کا مطلب کیا ہے؟ تو اس نے جھنجھلا کر کہا ’’پراں مر‘‘ ہمارا خیال ہے کہ جس طرح ایک سیب مریض کو ڈاکٹر سے دور کر دیتا ہے، اسی طرح ایک بے یارومددگار اور دواؤں سے محروم معاشرے میں ایک کھلکھلاتا قہقہہ، ایک چلچلاتی مسکراہٹ، ایک شوخ جملہ، ایک گدگداتا لطیفہ یقینا ایک پریشان شخص کو بیماری، آزاری کے وائرس سے کسی حد تک ضرور دور کر دیتا ہوگا۔یاد رکھیں بیماری کا مذاق اڑانا اور چیز ہے، دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، اور چیز ہے۔ یقین جانیں آج جب ہماری ایک عزیزہ نے فون پہ بتایا کہ وہ ان دنوں کرونا پہ ناول لکھ رہی ہے، تو ہمیں اس پہ ٹوٹ کے پیار آیا۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ موجودہ حالات میں سوشل میڈیا پہ حلال حرام کے خود ساختہ فتوے پڑھیں یا رحمان فارس کے اس شعر کا مزا لیں: وبائے عام سے مرنے کا خوف اپنی جگہ کواڑ کھول کے دیکھو بہار آئی ہے اس سلسلے میں کرنے والی آخری بات یہ ہے کہ دیس پردیس میں منڈلاتے ایک معمولی سے وائرس کی آہٹ سن کے ہم نے دنیاوی حاکموں کے ذرا سے اشارے پہ پلک جھپکنے میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور دفاتر بند کر دیے، امتحانات ملتوی کر دیے، خوشیوں غمیوں کی تقاریب ملتوی کر دیں، بازار، پارک سونے کر دیے، مہنگے مہنگے سینی ٹائزر خرید لائے، کچھ دنوں کا راشن سٹاک کر لیا، ماسک پہن لیے، اجتماعات سے گریز کرنے لگے، ہر آئے گئے کے ہاتھ دھلانا شروع کر دیے، کھانستے چھینکتے منھ پہ کپڑا رکھنا شروع کر دیا، حتّیٰ کہ باجماعت نمازوں سے بھی پرہیز شروع کر دیا…یہ ساری احتیاط یقیناً خوش آیند اور وقت کی ضرورت ہیں لیکن اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہم جھوٹ، مکر، فریب، ملاوٹ، سود، جہیز، برات، زمینوں ، جائیدادوںپہ قبضے، فرقہ پرستی اور شِرک جیسی دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کر دینے والی یقینی آفتوں، کہ جن سے اس کائنات کے سب سے بڑے حاکم نے بار بار ڈرایا، دھمکایا ، سمجھایاہے، سے احتیاط برتنا کب شروع کریں گے؟؟؟