ایک بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس کرپشن میں ماضی کی نسبت اضافہ ہوگیا ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ ہمارے ملک میں کرپشن ‘ مالی بددیانتی اور قانون کی حکمرانی کمزور ہے ہمیں کسی عالمی تنظیم کے سروے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے۔ جہاں تک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا تعلق ہے تو یہ کوئی مستند ادارہ نہیں۔ سیاسی طور پر جانبدار غیر سرکاری تنظیم ہے جو مختلف اوقات میں مسلم لیگ(ن) کے حق میں اپنی رپورٹیں دیتی رہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور میں اس نے پاکستان میں کرپشن زیادہ ہونے کی رپورٹیں جاری کی تھیں اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں کرپشن کم ہونے کی۔ حالانکہ ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ دونوں ادوار میں کرپشن میں کوئی فرق نہیں تھا۔ بلکہ مسلم لیگ(ن) نے کے دور حکومت میں بجلی بنانے کے زیادہ مہنگے منصوبے لگائے گئے اور بڑی سڑکیں بنانے کے ٹھیکے معمول سے زیادہ نرخوں پر دیے گئے۔ ان پراجیکٹس میں کروڑوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کا چونا لگایا گیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں سربراہ عادل گیلانی کو مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے سربیا میں سفیر مقرر کیا ۔ اسی سے ان کی غیر جانبداری کا پول کھل گیا تھا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں بھی اس ادارہ نے بہت منفی رپورٹیں جاری کرنا شروع کردی ہیں۔ اسکے سیاسی محرکات ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ میں لندن کے معروف جریدہ اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کے مہیا کیے گئے اعداد وشمار کی بنیاد پر پاکستان کی ریٹنگ خراب ظاہر کی گئی ہے۔ دنیا بھر میں شفافیت کا لائسنس بانٹنے والی اس تنظیم کی اپنی شفافیت کا یہ عالم ہے کہ اس نے یہ نہیں بتایا گیا کہ اکانومسٹ لندن کا سروے کتنے لوگوں پر مشتمل تھا اور اس کی رپورٹ کن لوگوں نے تیار کی۔ایک طویل عرصہ تک اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ لاہور کے ایک معروف صحافی لکھا کرتے تھے جو بعد میںنگران وزیراعلیٰ بنے ‘ اور جن کی اب مسلم لیگ (ن) سے گہری وابستگی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانبداری اپنی جگہ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کرپشن ہمارے ملک کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہماری قوم کی ہڈیوں میںدولت کی بھوک سرایت کرچکی ہے۔جائز ناجائز طریقوں سے دولت بنانا ایک طبقہ کا مذہب بن چکا ہے۔ ٹھیک ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت میں اضافہ نہیں کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتی اداروں میں جتنی کرپشن انکی حکومت سے پہلے تھی اب بھی موجود ہے۔ کرپشن صرف سرکاری اداروں تک محدود نہیں ۔ اس کا دائرہ نجی کاروبار تک پھیلا ہوا ہے۔ ٹیکس چوری۔ انڈرانوائسنگ۔ اوور انوائسنگ اور اسمگلنگ کے ذریعے ہر سال ملک کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اگر کاروباری افراد ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں تو حکومت کو ملکی اور غیرملکی بینکوں سے قرض نہ لینا پڑے۔ جہاں تک سرکاری اداروں کی کرپشن کا تعلق ہے تو جن سرکاری عہدوں پرمال بنایا جاسکتا ہے ان پرتعینات سرکاری ملازمین میں کم سے کم اسّی فیصدکرپشن میں ملوث ہیں۔ جن عہدوں پر پیسہ بنایا نہیں جاسکتا وہاں ایمانداری مجبوری ہے‘ رضاکارانہ نہیں۔بددیانت سرکاری افسروں‘ ٹھیکیداروں اور سیاستدانوں کا ایک مضبوط اتحاد ہے جو ملکی نظام پر قابض ہے۔ ہر سال سرکاری ترقیاتی کاموں کے لیے مختص بجٹ کا کم سے کم تیس فیصد حصّہ لوگوں کی ذاتی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ بددیانتی صرف یہ نہیں ہے کہ سرکاری مال ناجائز طریقہ سے کھا لیا جائے یا کام کرنے کے عوض رشوت وصول کی جائے بلکہ کسی کام کے عوض معاوضہ لے کر اسے دیانت داری سے نہ کرنا بھی بے ایمانی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں اس اخلاقی احساس کا فقدان ہے کہ ہمیں جس کام کے لیے معاوضہ دیا جاتا ہے اسے ایمانداری سے کرنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال کھربوں روپے عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مہا کرنے کے لیے مختص کرتی ہیںلیکن ان کاعوام کو بہت کم فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ اس کام کے لیے رکھا گیا سرکاری عملہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام نہیں دیتا ۔اسکولوں اور کالجوں کے لاکھوں اساتذہ کو ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ ملتی ہے اور نجی شعبہ کی نسبت زیادہ معاضہ دیا جاتا ہے۔ انہیںپنشن اورتعطیلات کی سہولتیں بھی دستیاب ہیں جو نجی شعبہ میں میسر نہیں لیکن سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا جو پست معیارہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حکومت کے اسکولوں اورکالجوں کے ٹیچر زیادہ محنت پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانے میں کرتے ہیں۔سرکار سے ایک طرح سے وظیفہ وصول کرتے ہیں۔ یہی حال حکومت کے ہسپتالوں کا ہے۔ سینئیر ڈاکٹر حکومت سے تنخواہ پاتے ہیں لیکن کام نجی کلینکوں اور ہسپتالوں میں کرتے ہیں۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ کرپشن میں ملوث ہیں وہ اس کو جائز‘ حلال سمجھنے لگے ہیں۔ انہوں نے ناجائز مال و دولت کے جائز ہونے کے جواز میں دلائل گھڑ رکھے ہیں۔ کرپٹ افراد سمجھتے ہیں کہ سرکاری عہدہ پرفائز شخص کا یہ حق ہے کہ وہ اپنا حصّہ وصول کرے۔ ہمارے معاشرتی رویّے اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ معاشرہ میں عزّت و وقار اس شخص کا ہے جس کے پاس مال ہے‘ جو بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ جائز آمدن والے‘ کفایت شعاری سے زندگی گزارنے والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارا کلچر ایسا ہے جو کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لوگ سادہ زندگی گزارنے والے کو کنجوس اور کھڑوس سمجھتے ہیں۔ ایسے شخص کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنی حیثیت سے بڑھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر بے تحاشا اور اپنی جائز آمدن سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ ایک لوئر مڈل کلاس کا آدمی بھی لاکھوں روپے ایسی تقریبات پر خرچ کرتا ہے۔ ظاہر ہے ان اخراجات کی ادائیگی کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔حال میں ایک بڑی سیاستدان نے اپنے بیٹے کی شادی پر درجن بھر تقریبات منعقد کیں اور ان پر کروڑوں روپے خرچ کیے جن کی نمائش اور تشہیرکا اہتمام کیا گیا تاکہ لوگوں میں انکی شاہانہ زندگی کا رعب قائم ہوسکے۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ پونے چار برسوں میں کسی بڑے آدمی کو کرپشن کے الزام میں سزا نہیں دلوا سکے۔ کیونکہ نظام ان سے زیادہ مضبوط ہے۔ بددیانت مافیا ہر جگہ موجود ہے۔ملک کا انتظامی ڈھانچہ کرپشن کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ہر کرپٹ آدمی کسی نہ کسی سیاسی گروہ سے وابستہ ہے تاکہ جب اس پر ہاتھ ڈالا جائے تو وہ کہہ سکے کہ اس سے سیاسی انتقام لیا جارہاہے۔ کرپشن کا رشتہ سب سے مضبوط تعلق بن چکا ہے۔اس کی جڑیں بہت گہری ہوگئی ہیں۔مالی بددیانتی میں ملوث لوگ ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ جس معاشرہ میں لوگوں کی اکثریت بددیانتی کو جائز تسلیم کرچکی ہو تو اس ملک کا نظام چلانے کے لیے فرشتے کہاں سے آئیں گے؟ جب تک ہمارے کلچر میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی اور ہمارے عوام کی اکثریت کا طرزِ فکراورنظام ِاقدار تبدیل نہیں ہوتے ملک سے کرپشن ختم ہونا ممکن نہیں۔