ملائیشن وزیر اعظم مہاتیر بن محمد نے مسلم دنیا میں سماجی اور اقتصادی ترقی پر بدعنوانی کے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو کرپشن کے خاتمے کے لئے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ جناب مہاتیر محمد نے اس تعاون کی ذیل میں آنے والے معاملات میں عوامی عہدہ رکھنے والوں کی جانب سے سرکاری رقوم چرانا بھی شامل کیا ہے۔ جناب مہاتیر محمد نے کہا کہ ترقی کے لئے امن و استحکام ضروری ہے۔ یہ نہ ہوں تو ملک پسماندہ رہ جاتا ہے۔ مہاتیر محمد کو ملائشیا میں ایک ایسے عظیم رہنما کے طور پر احترام دیا جاتاہے جس نے ایک پسماندہ قوم کو ترقی سے ہمکنار کیا اور اپنے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نئے اقتصادی مواقع پیدا کئے۔ ملائشیا میں تین چوتھائی آبادی چینی نژاد باشندوں کی ہے۔ جنوبی بھارت کے علاقے تامل ناڈو اور اس کے قرب و جوار سے ہزاروں خاندان عشروں پہلے ملائشیا میں آباد ہوئے۔ مقامی ملائے باشندوں اور آباد کار اقوام کے درمیان ایک عرصہ تک خانہ جنگی رہی۔ یہ تنکو عبدالرحمان تھے جنہوں نے 1957ء میں تمام قومیتوں کے لوگوں کو ایک جگہ بٹھا کر جدید ملائشیا کی بنیاد رکھی۔ انیس سو ساٹھ اور ستر کا ملائشیا ایسی ساحلی آبادی تھا جہاں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ ماہی گیری‘ ناریل اور پام آئل سے متعلق تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں جاپان کی الیکٹرونکس زبردست طلب پیدا کر چکی تھیں اس دورو میں ملائشیا کو مہاتیر جیسا لیڈر ملا۔ مہاتیر محمد کے بزرگ ہندوستان سے ہجرت کر کے ملائشیا آباد ہوئے تھے۔ مہاتیر محمد کو اس بات کا ادراک تھا کہ ترقی کے لئے امن اور کرپشن سے پاک ماحول ہونا ضروری ہے۔ ان کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملائشیا میں مثالی امن ہے اور امن کی سرزمین پر سیاحت جیسی صنعت سالانہ ساڑھے بائیس ارب ڈالر کما رہی ہے۔ ملائشیا میں بدعنوانی پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم نجیب رزاق سمیت کئی اہم افراد بدعنوانی پر سزا بھگت چکے ہیں۔ یہ مہاتیر محمد کے واضح انتظامی اور معاشی تصورات ہیں جن کی وجہ سے ملائشین قوم نے انہیں ریٹائرمنٹ ختم کر کے ایک بار پھر ملک کا وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔ یہاں کے اکثر سیاسی رہنمائوں کے جمہوریت کے متعلق خیالات قابل قدر ہیں۔ یقینا جمہوریت شہریوں کو مثالی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ جمہوریت ہے کہ ہر شہری ملک کے سربراہ سے اس کی کارکردگی پر سوال کر سکتا ہے مگر پاکستان میں جمہوریت کے اوصاف بتا کر عوام کو اپنے گرد اکٹھا کرنے والے یہ بات چھپا لیتے ہیں کہ جمہوریت کے فوائد پاکستانی سماج کی شعوری اور معاشی ترقی کی صورت میں اب تک کیوں نہیں مشکل ہو سکے۔ اس کا جواب ان دونوں سیاسی جماعتوں پر قرض ہے جن کو متعدد بار اقتدار ملا مگر وہ خاندانی اثاثوں میں اضافہ کے کچھ نہ کر سکیں۔ یہ جماعتیں عوام کے حقوق اور بہبود کی بجائے چند خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہیں۔ یہ بات کسی طرح سے لائق تحسین نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت اور ان کے ساتھیوں پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ ان الزامات کی تحقیق کو دونوں جماعتیں سیاسی انتقام یا دبائو کا نام دے کر شور مچاتی رہتی ہیں۔ میاں نواز شریف کو جے آئی ٹی نے تفصیلی تحقیقات کے بعد مجرم نامزد کیا۔ احتساب عدالت سے لے کر ملک کی سب سے بڑی عدالت تک نے ان کو خائن‘ بدعنوان اور قصوروار قرار دیا مگر وہ اب تک نظام میں موجود خرابیوں اور کمزوریوں کا سہارا لے کر قانون کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ساتھیوں نے ان کے جرائم کی جگہ ان کی بیماری کو ذرائع ابلاغ کی بحث بنا رکھا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر ان کا علاج کرنے کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں اور ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ چندروز قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین کو منی لانڈرنگ مقدمات میں تفتیش کے لئے نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں طلب کیا گیا۔ ایک قانون پسند سیاستدان کے طور پر ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اکیلے نیب ٹیم سے ملتے اور ان کے سوالات کے جواب دیتے مگر اس معاملے کو خوامخواہ جمہوریت اور عوام کے حقوق کی لڑائی بنانے کی کوشش میں کئی پولیس اہلکاروں کو پی پی پی کارکنوں نے زخمی کر دیا۔ بعدازاں اس معاملے کو انتقام کہہ کر اٹھایا جا رہاہے۔ اس ساری صورت حال میں پی پی پی قیادت اپنے اوپر لگنے والے منی لانڈرنگ الزامات کا جواب نہیں دے رہی۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ لوگوں کے شناختی کارڈوں پر ان کے علم میں لائے بغیر کیوں اور کس طرح بینک اکائونٹ کھولے گئے۔ کئی بے نامی جائیدادیں ہیں۔ درجنوں دوسرے الزامات ہیں۔ سابق حکمران جماعتوں کے قائدین نے سیاسی اور عوامی حقوق کے لئے کوئی جدوجہد کی ہوتی تو ان کے خلاف الزامات میں ایسا الزام بھی ضرور شامل ہوتا۔ ان جماعتوں کے دور اقتدار میں ملک بدامنی اور عدم استحکام کا شکار رہا۔ بھتہ خور‘ لینڈ مافیا‘ ملازمتیں فروخت کرنے والے‘ ٹھیکے لینے اور دینے والے‘ قرضے معاف کرانے والے‘ سرکاری وسائل ہڑپ کرنے والے اور میگا منصوبوں سے مال بنانے والے سب ان کے اردگرد نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو سماجی اور اقتصادی ترقی سے غرض ہوتی تو یہ دنیا بھر میں ایسے اداروں اور شخصیات کے پاس جاتے جو پاکستان میں پھیلی بدانتظامی‘ کرپشن اور نااہلی کے خاتمہ میں ان کی مدد کر سکتے۔ وزیر اعظم عمران خان نے چین سے بدعنوانی کے خاتمہ کے سلسلے میں مدد لی ہے اب جناب مہاتیر محمد جیسے تجربہ کار مدبر دوست سے تعاون ملنا خوش آئند ہے۔ بلا شبہ پاکستان کا مستقبل ایسی جمہوریت سے وابستہ نہیں جو چند خاندانوں کی یرغمال ہو۔