صدر مملکت عارف علوی نے انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کا عمل طاقتور اور بڑے آدمی سے شروع ہونا چاہئے۔وزیر اعظم عمران خان نے نسٹ میں خطاب کیا اور پوری قوم کو کرپشن کے خلاف جہاد میں شرکت کا کہا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جو پیسہ عوامی منصوبوںپر خرچ ہونا تھا وہ منی لانڈرنگ کی نذر ہو گیا۔ شعور نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بددیانتوں پر پھول پھینکتے ہیں۔ بدعنوانی ایک سماجی برائی ہے۔ ابتدا میں اس کے نقصان کا دائرہ دو افراد میں سے ایک کی حق تلفی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے پھر ایک خاندان، معاشرہ اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ فرد کا عمل جب دوسرے افراد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تک پھیل جاتا ہے تو ریاست اپنے قانون کی چھڑی سے فرد کو دوسروں کے لیے زحمت پیدا کرنے سے روکتی ہے۔ پاکستان میں بدعنوانی کا چلن عام آدمی کے مزاج میں ایسا نہیں کہ تشویشناک قرار دیا جا سکے لیکن جو منصب اوراختیار رکھتا ہے اس کا دامن کہیں نہ کہیں کرپشن سے بندھا ہوتا ہے۔ پٹواری، تھانیدار، عدالتی عملہ، تعلیمی ادارے، ہسپتالوں کی انتظامیہ، صفائی کے محکمے، مالیاتی لین دین کے ادارے۔ ہر جگہ کرپشن ہے۔ سیاست چونکہ ریاست کا انتظام چلانے کا کام ہے۔ اس لیے سیاستدانوں کے پاس ایسے بے شمار مواقع ہوتے ہیں جہاں وہ کرپشن کر سکتے ہیں۔ من پسند افراد کو ٹھیکے دینا، مرضی کے افراد کو ملازمتیں دینا، کسی دوست کو اعلیٰ عہدہ عطا کر دینا، بیرونی ممالک کے دوروں میں اپنے خاص لوگ لے جانا، بیٹی یا بیٹے کو مشیر کا درجہ دے دینا۔ایک سے زائد ذاتی گھروں کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر وہاں کے تمام اخراجات عوامی خزانے سے پورے کرنا۔ کسی کی حمایت میں وزیر اعظم سے بات کرنا۔ ہمارے ہاں تھانہ اور پٹوار کی سیاست ایک عرصہ تک رائج رہی۔ کسی نہ کسی شکل میں تھانہ اور پٹوار کی اہمیت آج بھی وہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاستدان کی توجہ طاقت کے ذریعے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے پر ہے۔ خدمت اور بہبود کے ذریعے وہ رائے دہندگان سے رابطہ رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ کسی مملکت کا نظام وہاں کے حکمران طبقات بناتے ہیں۔ اس طرح کا نظام یورپ کے باشعور اور سنجیدہ نمائندے ترتیب دیں تو وہ عوامی فلاح و بہبود کو اولیت دیتے ہیں۔ عوام کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کسی نمائندے کا محاسبہ کر سکیں۔ ہمارا سماج جاگیرداری نظام کے مفادات کا تابع ہے۔ جاگیردار،وڈیرہ یا ملک کی مرضی کے بغیر کوئی مزارع اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتا ہے نہ ہنر سکھا سکتا ہے۔ سیاسی اور انتظامی امور کے متعلق عوام کے شعور کی سطح کبھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ سیاسی نظام مخصوص خاندانوں کا غلام رہا اور عوام ان خاندانوں کے سیاسی غلام۔ معاشرے میں وہ اقدار نشوونما نہیں پا سکیں جو بلا امتیاز احتساب اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران خاندانوں کے افراد اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔ ادارے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں مگر اس طرح کی قانونی کارروائیوں کو مذاق بنا دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ پاکستان میں لوگ بدعنوان افراد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ معاشرے کا مجموعی مزاج اور شکل بدعنوانی سے اظہار نفرت کرنے کی ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ کے پیش نظر قانون کی بالادستی کبھی اہم نہ تھی اس لیے جب کبھی کسی گناہگار کو سزا ملی وہ نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والا معمولی کارندہ نکلا۔ سیاسی و انتظامی عہدے اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی کرپشن کے ثبوت ایک ایک کر کے غائب ہونے لگتے ہیں۔ اگر کوئی سرکاری اہلکار ایمانداری پر ڈٹ جائے تو اسے راہ سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کے باوجود معاملہ عدالت میں پہنچ بھی جائے تو پھر مہنگے وکیلوں، مراعات یافتہ ترجمانوں اور دوسرے ہتھکنڈوں کی مدد سے مقدمے کو سالہا سال تک لٹکا دیا جاتا ہے، گواہوں پر اعتراضات، شواہد پر طویل مباحث، طریقہ کار کے خلاف نئی نئی ذیلی درخواستیں، بیماریوں کے سرٹیفکیٹس اور آخر کار عدالت سے باہر معاملات کو خفیہ طریقے سے طے کرنے کی روش معمول بن چکی ہے۔ وزیر اعظم درپردہ حالات و واقعات سے با خبر ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ عوامی منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم منی لانڈرنگ کی نذر ہو گئی تو اس کا مطلب سابق حکمران خاندانوں کی ناجائز طریقے سے بیرون ملک بنائی گئی جائیدادیں ہیں۔ بدعنوانی کا انسداد ہماری بقا کا معاملہ بن چکا ہے۔ بدعنوان افراد نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قانون نافذ کرنے والے اور احتساب کا کام کرنے والے اداروں میں سیاسی بھرتیاں کیں۔ اپنے وفادار بھرتی کرنے کے باوجود انہوں نے چرچا بازی شروع کر دی کہ پولیس، ایف آئی اے اور نیب خود کرپٹ ہیں۔ اس چرچا بازی کا انہیں یہ فائدہ ہوا کہ عام شہری ریاستی اداروں کے متعلق غلط فہمی اور بدگمانی کا شکار ہو گیا۔ اب یہ ادارے کوئی درست کام بھی کریں تو ملزم اور اس کے حامی اسے سیاسی انتقام کا نام دے کر شوروغوغا شروع کر دیتے ہیں۔ سماجی و سیاسی شعور کی کمی کے باعث عوام کی بڑی تعداد اس طرح کے پروپیگنڈا پر یقین کر کے اپنی ہی محنت سے جمع دولت لوٹنے والوں کے حق میں جیوے جیوے کے فلک شگاف نعرے لگا رہی ہوتی ہے۔ پاکستانی سماج کی خوبیوں کو بدعنوانی کا گھن چاٹ رہا ہے۔ یہ گھن ترقی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ناقابل برداشت مشکلات کا سبب بن سکتا ہے، لہٰذا وزیر اعظم نے قوم سے جس تعاون کی اپیل کی ہے قوم کو اس پر لبیک کہنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔