جناب شاہد خاقان عباسی نے قوم کی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کراچی کے مسائل پر سیاست نہ کی جائے اور مجھ جیسا طالب علم حیرت سے بیٹھا سوچ رہا ہے کہ پھر کیا کوٹلی ستیاں کے کریانہ سٹور پر پڑی چنے کی دال کے بھائو پر سیاست کی جائے؟ اہل سیاست کے تضادات کراچی کی بارشوں سے زیادہ سنگین ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں سے کراچی میں کھڑے پانی سے زیادہ تعفن اٹھ رہا ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی میدان سیاست کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کی بنیادی پہچان یہی سیاست ہے ورنہ تحصیل راولپنڈی سے باہر کوئی انہیں جاننے والا بھی نہ ہوتا۔ سیاست ہی نے انہیں وفاقی وزیر بنایا اور سیاست ہی انہیں وزارت عظمی کی نشست تک لائی۔دعوی یہ ہے ہم سیاست عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور ہماری سیاست کا مقصد عوام کی فلاح ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاست عوام کی فلاح کے لیے کی جاتی ہے تو کراچی کے مسائل پر سیاست کیوں نہ کی جائے اور اگر سیاست اتنی ہی گندی اور غلیظ چیز ہے تو پھر یہ باقی کے مسائل پر سیاست کیوں کی جائے۔ کچھ لایعنی سے اقوال زریں ہیں جو اہل سیاست نے دو کے پہاڑے کی طرح یاد کر رکھے ہیں۔ نہ سوچتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں اور نہ غور کرتے ہیں، بس جہاں موقع ملے دو کا پہاڑا شروع کر دیتے ہیں۔ اک دونی دونی تے دو دونی چار۔ تعلیم پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ معیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ صحت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، یہ امور خارجہ ہیں، ان پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔مذہب پر سیاست نہ کی جائے ۔سوال یہ ہے کہ پھر سیاست کس چیز پر کرنی چاہیے؟ سیاست ہے کیا ؟ کیا یہ ایک برائی ہے اور سنجیدہ قومی معاملات کو اس سے دور رکھنا چاہیے؟ عام آدمی کے ہاں تو سیاست ان مسائل کے حل کا نام ہے لیکن اہل سیاست خوب سمجھتے ہیں کہ سیاست کی حقیقت کیا ہے۔ اسی لیے جب کوئی سنجیدہ بحران قوم کے دامن سے لپٹ جاتا ہے تو ارشاد فرمایا جاتا ہے: اس مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ گویا اس بات کا اعتراف ہے کہ سیاست غم روز گار سے بے نیاز دولت مند اشرافیہ کا ٹائم پاس ہے، اس لیے سنجیدہ قومی معاملات کو اس سے دور رکھنا چاہیے۔ کراچی کے مسئلے پر سیاست بری چیز ہے تو دیگر قومی مسائل پر سیاست فرمانے کا کیا جواز ہے؟ کراچی کے مسئلے کی سنگینی کا اگر یہ تقاضا ہے کہ سیاست کو اس سے دور رکھا جائے تو دیگر قومی اہمیت کے معاملات میں سیاست کے سبز قدم پھر کیوں پڑنے دیے جائیں؟ یہاں تو قومی زندگی کے ہر مسئلے کو سیاست لاحق ہو چکی ہے۔ اگر یہ سیاست اچھی چیز ہے تو کراچی کے مسائل پر بھی ہونی چاہیے اور اگر یہ ایک لعنت ہے تو دیگر اہم قومی معاملات سے بھی اس کو دور لے جایا جانا چاہیے۔ یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کہ ملک کے تمام داخلی اور خارجی معاملات پر تو خوب سیاست فرمائی جائے اور کراچی کے مسائل کی بات چھڑے تو صوفیائے سیاست تارک الدنیا ہو جائیں کہ اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے۔ سیاست یہاں بے توقیر ہے تو اس کی وجہ یہی اہل سیاست ہیں جو صبح شام سیاست کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے خیال میں سیاست ایک ایسا شیطانی عمل ہے کہ اہم قومی معاملے سے اسے دو کوس دور رکھنا چاہیے۔ یہ ہمہ وقت سیاست دان ہیں لیکن ان کے خیال میں سیاست جھوٹ فراڈ اور دھوکہ دہی کا ایک ایسا بے رحم کھیل ہے جس میں کوئی اخلاقیات باقی ہیں نہ ہی کوئی شرم اور حیا۔چنانچہ جب کہیں کوئی سنجیدہ معاملہ درپیش ہو یہ دہائی دیتے ہیں پلیز اس معاملے میں سیاست نہ کی جائے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ جس معاملے میں ہم اہل سیاست، سیاست فرما دیں گے،ا س معاملے کا ہم ستیا ناس کر دیں گے۔ یہ اعتراف ہے کہ جب ہم سیاست فرماتے ہیں تو حق سچ اور اخلاقیات کو ہم قدموں تلے روند دیتے ہیں اور صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔چنانچہ اب کراچی کا حال دیکھ کر جب ان کا دل پسیج جاتا ہے تو یہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں دہائی دیتے ہیں : یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اس کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ سیاست نے اگر عوام کے مسائل،محرومیوں اور مجبوریوں کو اپنا موضوع نہیں بنانا تو اس کی افادیت کیا ہے۔کیوں نہ اس ڈائن کو پھر بالوں سے پکڑ کر کسی تنور میں ڈال دیا جائے؟ ریاست اور حکومت دو الگ چیزیں ہیں۔ یہ صرف شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق ہیں جن کی حد تک آئین نے حکومت ہی کو ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔ یہ غیر معمولی اہتمام آئین میں اسی لیے کیا گیا کہ حکومت اس باب میں حساس رہے۔ اب حکومت کیسے ملتی؟ سیاست کے ذریعے۔ سیاست کے ذریعے لوگ الیکشن لڑتے ہیں ، سیاست کے ذریعے اسمبلی میں پہنچتے ہیں ، سیاست کے ذریعے اتحاد بنتے ہیں اور اتحادوں کے سر پر حکومتیں بنتی ہیں۔سیاست ہی کے ذریعے حزب اختلاف متحرک ہوتی ہے ، سیاست ہی کا سہارا لے کر وہ اپنی بات عوام تک پہنچاتی ہے ، سیاست ہی کے ذریعے ایک عصبیت کھڑی ہوتی ، سیاست ہی کی بنیاد پر سماج کی تقسیم ہوتی ہے اور پھر جب اسی سماج کو کوئی مصیبت آن لیتی ہے تو ارشاد ہوتا ہے: یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس پر سیاست نہ کی جائے۔ کراچی میں مقامی حکومت بنی تو سیاست کے ذریعے ، صوبائی حکومت قائم ہوئی تو سیاست کے ذریعے ، کراچی کے لوگ وفاقی وزیر بنے تو سیاست کے سہارے ، کراچی کے ایک صاحب صدر مملکت کے عہدے پر جا بیٹھے تو اسی سیاست کے ذریعے اور جب کراچی ڈوب ہوا تو سیانے سیانے لوگ سمجھانے آ گئے خبردار یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے یہاں سیاست نہ کی جائے۔ جواز کا کیا ہے ایک سو ایک جواز پیش کیے جا سکتے ہیں کہ عالی جاہ کہنا کیا چاہ رہے تھے لیکن ایک بات طے ہے کہ سیاست کے ذریعے اس ملک کا وزیر اعظم بننے والا شخص سیاست کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ سنگین مسائل میں اسے زحمت دی جائے۔سیاست پھر کیا ہے؟ کیا سیاست اس چیز کا نام ہے کہ ہر روز یہ غریب قوم چار سو کروڑ کے قریب برباد کر کے پارلیمان کا اجلاس منعقد کروائے اور وہاں اول مراد سعید داد خطابت دیں اور پھر عبد القادر پٹیل صاحب اپنی خطابت کے جوہر دکھائیں اور لوگ فن کے یہ مظاہر دیکھ کر گھر میں ہی کہیں ڈوب مرنے کی خواہش کرنے لگیں کہ یہ ہماری مقدس پارلیمان ہے جہاں آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا اترنے والے اکابرین گفتگو فرما رہے ہیں۔ کراچی پر سیاست مت کیجیے ، آئیے نصیبو لال کے گانے کی شاعری پر سیاست کرتے ہیں۔تو کیا فرماتے ہیںجناب شاہد خاقان عباسی صاحب بیچ اس مسئلے کے کہ نصیبو لال کے گانوں کا اردو ادب میں کیا مقام ہے؟